جہیز:معاشرےکےلیےایک ناسور
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی : جہیز کا لین دین یہ سماج کا ایک
ناسور ہے، یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہے ماں باپ اپنی لاڈلی اور پیاری بیٹی کو پال
پوس کر، تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کر کے، عمرکے ایک مرحلے تک اس کی ہر طرح
سے نگہداشت اور حفاظت کر کے ایک مرد کے بالکلیہ حوالہ کردیں، ساتھ ہی یہ ماں باپ
ہی کی ذمہ داری ہے کہ جہیز کی شکل میں اس کی زندگی کا سارا سامان بھی کریں، کچھ
کمی کوتاہی رہ جائے تو ساری زندگی خود اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کو سسرال
والوں کی طعن وتشنیع اور ان کی اذیتوں کا نشانہ بنائے، یہی کیا بس تھا کہ اپنی حور
جیسے بیٹی کو ماں باپ نے پال پوس کر، تعلیم واخلاق سے آراستہ کرکے مرد کے حوالہ
کردیا، جہیز کی مانگ یہ مرد کی مردانگی وفرزانگی کے خلاف ہے، کیا کبھی ہم نے سوچا
کہ جس وقت ہم جہیز مانگ رہے ہیں توشادی کے بعد ہمیں بھی اولادیں ہونگی، دو یا تین
لڑکیاں ہوں گی تو ان کے جہیز کا نظم کہاں کریں گے؟جہیز کے ڈیمانڈاور مانگ کی رسم
کی وجہ سے ہر چوتھے گھنٹے کوئی نہ کوئی معصوم عورت اپنی جان گنوا بیٹھتی ہے، اعداد
وشمار کے مطابق ہر سال جہیز کی رسم کے نتیجے میں کچھ ان بیاہی اور کچھ بیاہی
لڑکیاں ملا کر ہر سال 10000لڑکیاں موت کی شکار ہوتی ہیں، ہر سال جہیز کی مانگ اور
ڈیمانڈ کے نتیجے میں مرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے، جہیز کے مانگ
کا یہ رواج ملک کے ہر گوشہ میں ہے، ہر جگہ جہیز کی مانگ کے نتیجے میں خواتین کو اس
خود کشی پر مجبور ہونا پڑتاہے۔
ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہمارے سماج اور معاشرے میں پیش آتے
ہیں، کتنی معصوم خواتین جو شادی کے کچھ سالوں کے بعد ہی شوہروں اور سرال والوں کی
ہراسانی کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہوں گے، یہ کس طرح کے مالد ار
لوگ ہیں جو جہیز کے نام پر 10، 10لاکھ کی بھیک جوڑے کے نام پر مانگتے ہیں، یہ تو
بھکاری ہیں، یہ تو کاروباری اور دھوکہ باز اور دغاز ہیں، ان کو شوہر جیسا مقام زیب
نہیں دیتا، آج جس قدر پیسہ والا آدمی ہوتا ہے، جس قدر بڑا ڈاکٹر اور بزمین مین
ہوتا ہے اس کا جہیز اور جوڑے کے رقم کا مطالبہ بھی اس کی شایانِ شان ہوتا ہے،
انہیں مالدار یا بزمین یا بڑا ڈاکٹر کیسے کہیں ؟ یہ تو دلال ہیں، یہ عورت کی عزت
وعصمت اورنسوانیت اور معصومیت کاخون چوسنے والے ہیں، یہ توانسانیت قصاب ہیں، یہ
عورت کی فطری کمزوری اور نسوانیت کا استحصال کرنے والے چور اچکے ہیں۔
جہیز کی مانگ اور مطالبے آج سماج اور معاشرے کو نہایت حیران اور
پریشان کیا ہواہے، آج لڑکی کی پیدائش پرناک بھاں جوچڑھائے جاتے ہیں، اس کے پس پردہ
بھی جہیز کی یہ ظالمانہ مانگ کارفرما ہے، لڑکی کی پیدائش سے ہی ماں باپ کو ایک
خطیر رقم جہیز اورجوڑے کے نام پر پس انداز کرکے رکھنا پڑتا ہے، کیوں جہیز میں سارے
سازوسامان کے ساتھ بہت ساری جگہ ٹی وی، واشنگ مشین، فریج، کلر، بلکہ اب تو گاڑی
اورکاریں دینے کا بھی رواج ہوگیا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سارا انتظام مرد
حضرات خود کیوں نہیں کرلیتے، یہ سارا مطالبہ ناتواں لڑکی اور اس کے ماں باپ پر لاد
دیا جاتا ہے تو عقل سے بالکل ماورا چیز نظر آتی ہے، اس جہیز کی مانگ نے سماج پر
بہت ظلم ڈھائے ہیں، شادی سے قبل غریب ماں باپ کی جہیز کی پونچی جمع کرنے کے خاطر
رات ودن کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، بسااوقات ماں باپ کو قرض کے بوجھ تلے دب جانا
پڑتاہے، یا لڑکیوں کی عمریں اسی جہیز کے ساز وسامان کے انتظام کے انتظار میں
گذرجاتی ہیں، یہ ظالم معاشرہ اس قدر درندہ صفت واقع ہوا ہے جہیز کی مانگ کے پورا
کرنے کے باوجود بھی لڑکی اور اس کے ماں باپ کو ہراساں کرنا ترک نہیں کرتا؛ بلکہ اس
کے بعد بھی سسرال کے ٹکڑوں پر پلنے کی ہوس ختم نہیں ہوتی، یہ جہیز اس قدر خطرناک
وبا بن چکی ہے کہ اسکے سامنے خوبصورتی، خاندان، اخلاق اور تعلیم بھی ماند پڑجاتے
ہیں، بہت سارے پڑھے لکھے لوگ جو جہیز کو برا گردانتے ہیں، لیکن خود جب اپنی یا
اپنے لڑکوں کی شادی کا موقع ہوتاہے تو پھر اس جہیز اور سازوسامان اور روپیوں اور
پیسوں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا مردانہ حق سمجھتے ہیں اور زیادہ زیادہ دام
پر اپنی بولی لگاتے ہیں، اپنے آپ کو وہاں فروخت کرتے ہیں جہاں ان کو جہیز اور جوڑے
کے نام پر زیادہ دام ملیں۔
خطرناک صورتحال یہ ھے جہیز ہراسانی، لڑکیوں کو خود کشی پر مجبور
کرنا اور ان کو جہیز کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنا یہ نبی کے نام لیوا مسلمان کرتے
ہیں، جس نے کبھی کسی غلام اور عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور عورت کے حقوق بیان کئے
وہ مسلمان عورتوں کو اذیت دیتے ہیں، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ خطبا، علما،
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس وبا کے قبیح پہلوں کو خوب بیان کیاجائے اور
معاشرے میں شعور بیدار کیا جائے کہ جس لڑکی کو وہ اس طرح ہراساں کررہے ہیں اگر خود
ان کی لڑکی کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آئے تو وہ کس طرح تلملا کر رہ جائیں، جہیز
جو کہ قانونی طور پر بھی منع ہے اور شرعی طور پر بھی، ان دونوں پہلوں سے اس کی
قباحت اور برائی کو خوب بیان کیاجائے ؛ بلکہ تنظیموں اور جماعتوں اور خصوصا نوجوان
کی ایسی تنظیمیں تشکیل دی جائیں جو محلہ واری سطح پر اس وبا میں ملوث اور جہیز کا
لین دین کرنے والے اور شادیوں میں بے جااسراف کرنے والوں کاتعاقب کریں اور ان کی
گرفت کریں اور ان کو اس طرح کرنے باز رکھیں اور ان کاسماجی اور سوشل بائیکاٹ کریں،
جہیز کی وبا نے شادی کو مشکل تر بنادیا ہے، اسلام نے شادی کو اس قدر سادہ کرنے
کرنے کے لئے کہا ہے کہ زنا مشکل ہوجائے، اب ہم نے مختلف رسموں رواجوں او رخصوصا
جہیز اور جوڑے کی مانگ سے شادی کواس قدر مشکل کردیا ہے کہ زنا اوربرائی آسان ہوگئی
اور شادی مشکل ہوگئی۔
جوڑے اور جہیز کو فقہا نے شرعا رشوت قراردیا ہے، کتب فقہ کی ورق
گردانی سے معلوم ہوتا ہے قدیم زمانہ میں بھی اور آج کل بھی عالمِ عربی میں صورت یہ
رائج ہے کہ لڑکی والے لڑکے والوں سے خطیر رقم یا دیگر اشیا کا مطالبہ کرتے ہیں،
شرعی نقطہ نظر سے یہ مطالبہ رشوت ہے اور ا س کے لئے ذریعہ اور واسطہ بننا بھی حرام
ہے (الرد المحتار)اس صورت میں بھی ممنوع ہے جب کہ صریح اور واضح الفاظ میں تو
مطالبہ نہ ہو ؛ لیکن غالب گمان یہ ہے کہ جہیز یا نقد رقم اگر ادا نہیں کی گئی تو
یہ رشتہ منظور نہ ہوگا یا اگر بادل ناخواستہ رشتے طئے بھی ہوجائے تو بد سلوکی، حق
تلفی، طعن وتشنیع اور ایذا رسانی کا خدشہ ہو، فقہا کرام نے اس صورت کی بڑی شد ومد
سے حرمت بیان کی ہے، آج کل ہندوستان اور پورے بر صغیر کی موجودہ صورتحال کے بارے
میں فرماتے ہیں، جب لڑکی والوں کے مطالبہ پر لڑکے کی طرف سے دی جانے والی رقم رشوت
اور ناجائز ہے تو پھر لڑکے اور اس کے اہلِ خانہ کی جانب سے صراحت، کنای، دلال یا
عرف ورواج کے طور پر جہیز اور نقدی کا مطالبہ بدرجہ اولی رشوت ہے جو حرام ہے اور
اس کو لوٹانا واجب ہے(مسون نکاح: 109)
ہمارے یہاں بر صغیر اور عرب میں جہیز کا رواج ضرور ہے ؛ لیکن وہاں
مرد کو سارے سازوسامان کرنے پڑتے ہیں، حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب
ذکر وفکر میں اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کیا ہے بطور عبرت کے پیش خدمت ہے :
” چند سال پہلے شام کے ایک بزرگ شیخ عبد الفتاح ہمارے یہاں تشریف
لائے تھے، اتفاق سے ایک مقامی دوست بھی اس وقت آگئے، اور جب انہوں نے ایک عرب بزرگ
کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میری دو بیٹیاں
شادی کے لائق ہیں دعا کیجئے کہ اللہ تعالی ان کی شادی کیاسباب پیدا فرمادے، شیخ نے
ان سے پوچھا کہ کیا ان کے لئے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا؟ اس پر انہوں نے جواب
دیا کہ رشتہ تو دونوں کا ہوچکا ہے ؛ لیکن میرے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ ان
کی شادی کرسکوں، شیخ نے یہ سن کر انتہائی حیرت سے پوچھا : وہ آپ کی لڑکیاں ہیں یا
لڑکے ؟ کہنے لگے : لڑکیاں ہیں، شیخ نے سراپا تعجب بن کر کہا لڑکیوں کی شادی کے لئے
مالی وسائل کی ضرورت ہے ؟ انہوں نے کہا: کہ میرے پاس انہیں جہیز دینے کے لئے کچھ
نہیں ہے، شیخ نے پوچھا : جہیز کیا ہوتا ہے ؟ اس پر حاضرینِ مجلس نے انہیں بتایا کہ
ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ باپ شادی کے وقت اپنی بیٹی کو زیورات، کپڑے، گھر کا
اثاثہ اور بہت ساز وسامان دیتا ہے اسے جہیز کہتے ہیں، اور جہیز دینا باپ کی
ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، جس کے بغیر لڑکی کی شادی کا تصور نہیں، اور لڑکی کی سسرال
والے بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں، شیخ نے یہ تفصیل سنی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے
اور کہنے لگے : کیا بیٹی کی شادی کرنا جرم ہے، جس کی یہ سزا باپ کو دی جائے ؟ پھر
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک اس قسم کی رسم نہیں ہے، اکثرجگہوں پر تو یہ لڑکے کی
ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اکثر جگہوں پر تو یہ لڑکے کے ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ
اپنے گھر میں دلہن کو لانے سے پہلے گھر کا اثاثہ اور دلہن کی ضروریات فراہم کر کے
رکھے، لڑکی کے باپ کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتااور بعض جگہوں پر رواج یہ ہے کہ لڑکی
کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے سامان تو باپ ہی خریدتا ہے، لیکن اس قیمت لڑکا
ادا کرتا ہے، البتہ باپ اپنی بیٹی کو رخصت کے وقت کوئی مختصر تحفہ دینا چاہے تو دے
سکتا ہے، لیکن وہ بھی کچھ ایسا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ ( ذکر وفکر: 283۔ )
بہرحال اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جہیز کی وبا پر بند لگایا
جائے، جہیز کی قانونی وشرعی حیثیت کو بتلا کر اس وبا کو ختم کیاجائے، اس تعلق سے الیکڑک
اور پرنٹ میڈیا کا سہارا لے کر اس کی برائی بیان کیاجائے، اس طرح اس ناسور اور وبا
پر بند لگایا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment