عید الاضحی کا سبقمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
یہ اللہ عزوجل کا نہایت احسان وفضل وکرم کہ اللہ عزوجل نے ہمارے لئے خوشی ومسرت اور شادمانی کے دو مواقع نصیب فرمائے، ایک رمضان المبارک کے روزوں کے اختتام پر ’’عید الفطر‘‘ کی خوشی اور مسرت کا موقع ہے اور دوسرا موقع اور لمحہ عید الأضحی کا موقع ہے، ہم عید ومسرت وشادمانی کے ان لمحات کو یوں ہی سرسری انداز میں نہ گذار دیں ؛ بلکہ ان خوشی کے مواقع اور لمحات کو عبرت وموعظت کا ذریعہ بنائیں۔
عید کے لمحات اور شادمانیاں اور خوشیوں کی یہ سوغات ہر سال ہم پر آتے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ اس سے کسی بھی طرح درس وعبرت نہیں لیتے اور اس سے اپنی زندگی کو سجانے اور سنوارنے اور اس سے عبرت موعظت حاصل کرنے کی تگ ودو نہیں کرتے، خصوصا عید الاضحی کے اس موقع سے ہم میں دین وعقیدہ کے حوالے سے قربانی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے، در اصل غیر مسلم اقوام یہود ونصاری دیگر امتوں کی تقلید اور نقالی میں ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ جس طرح عید کے مواقع کو عیش کوشی اور تفریح نفس کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، اس کو انہوں نے عبرت وموعظت اور رجوع الی اللہ اور جذبہ واحساسات کی قربانی کا ذریعہ نہیں بنایا، عید کے یہ مواقع ان پر کوئی اثر نہیں چھوڑتے، ان کی اندر اس سے کوئی تبدیلی اور تغیر پیدا نہیں ہوتا، نہ وہ گمراہی اور بے راہ روی سے باز آتے ہیں اور نہ ان کے اندر خیر وخوبی کاکوئی جذبہ پیدا ہوتا ہے، اسی طرح ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم نے بھی عید کے مواقع کو محض تفریح نفس اور تسلی قلب کا سامان بنایا ہوا ہے، اگر ہم عیدین کے ان مواقع اور خوشی ومسرت کی ان گھڑیوں کو صحیح روحانیت اور واقعی حقیقت کے ساتھ منائیں تو عید کے یہ مواقع ہمارے لئے ہماری زندگی میں تبدیلی اور تغییر کا سامان بنیں گے، ہمارے ساری زندگی سدھر اور سنور جائے گی، اور ہمارے سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، ہمارے سارے اطور وعادات درست ہوجائیں گے۔
عید الاضحی کے موقع سے کتنے مسلمان ہیں جو محض اخلاص وللہیت، رضاء خداوندی اور صرف اورصر ف خوشنودی رب سے قربانی دیتے ہیں، ، قربانی کے اس موقع سے ہمارے اندر یہ جذبہ کار فرما ہو کہ دین اور عقیدہ کے مطالبہ اور ضرورت پر وہ خود اپناخون بہائے گا، اپنی ذات کی قربانی تک دے گا۔
اگر مسلمانوں میں واقعی یہ جذبہ کار فرما ہوجائے تو وہ ایک نہایت طاقتور مسلمان بن سکتاہے، جو چیلنجوں سے نہیں خوف نہیں کھاتا، دشمن اس کو ہلانہیں سکتا، منافقین اس کے درپے نہیں ہوسکتے، نہ جادہ حق سے انحراف کرسکتا ہے،، اپنے موقف کا سودا نہیں کرسکتا، اپنے اصول سے سرمو انحراف نہیں کرسکتا، خواہ اسے اس راہ میں کسی طرح کی مشقتیں درپیش ہوں، اسے خواہ کسی قدر سختی اور تکلیف کو جھیلنا پڑے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث شریف میں مروی ہے کہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اللہ عز وجل کے یہاں خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، یہ قربانی کا جانور روز قیامت اپنے سنگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور یہ خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ عزوجل کے یہاں مقبول ہوجاتا ہے، اس لئے قربانی خوش دلی سے دیا کرو ( ابن ماجہ، حدیث: 1326)
اس حدیث سے پتہ چلا کہ اللہ عزوجل کے یہاں قربانی کا یہ عمل اسی وقت قبولیت حاصل کرسکتا ہے، جب کہ اس میں اخلاص وللہیت کافرما ہو، اس میں ریاکاری، شہرت عرف وعادت کا دخل نہ ہو۔
اس لئے جب کوئی مسلمان نہایت اخلاص وللیہت اور ایمان کے جذبہ کے ساتھ دیتا ہے تو گویا اس نے اپنے آپ کو منہاج اسلام اور شریعت کے رنگ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر ڈھال لیا، اس نے اپنے آپ سے گویا یہ معاہدہ کرلیا کہ وہ دین حنیف کے مطالبہ پر ہر طرح قیمت چکانے کے لئے تیارہے۔
عید الاضحی کی قربانی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مومن نے اپنے ارادوں کو پس پشت ڈال دیا ہے، دین اور عقیدہ واسلام کی چاہ کو اپنی چاہ پر مقدم کرلیاہے، اب وہ زندگی کے ہر شعبہ میں شریعت کی روشنی کے مطابق چلے گا، اس کا ہر فعل دین کے مطابقہ ہوگا، اور شریعت سے ہٹ کرکوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔
قوی وطاقتور، جسم وجثہ کے حامل بکریوں، اعلی وقیمتی دنبوں، نہایت حسین وخوبصورت جانوروں کی قربانی دے کر بھی گمراہی پر چلتا ہے، خواہشات کی ڈگر کو اختیار کرتا ہے، شہوات ولذات میں پڑا رہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی قربانی اللہ کے یہاں مقبول ومنظور نہیں ہوئی، اور توقع اور امید کے مطابق وہ بارگاہِ ایزدی میں شرف حاصل نہ کرسکی، اور اس کو اس قربانی کے ذریعے رضا وتسلیم کا وہ پروانہ من جانب اللہ نہیں مل سکتا جو ایک مومن کی دنیا وآخرت کا سرمایہ ہے۔
قربانی کے ذریعے اللہ عزوجل مومن کے دل میں موجود تقوی اور اللہ کے ڈر اور خوف کا اندازہ کرنا چاہتے، جس تقوی کے وصف نے اس کو اپنے جانور کی قربانی پر آمادہ کیا ہواہے، چونکہ یہی تقوی کا وصف و ہ ہے جو اس کو آمادہ خیر کرتا ہے اور شرسے روکتا ہے، اور اللہ کی رضا جوئی پر کو ابھارتا ہے، تقوی کا یہ وصف جس عمل میں بھی شامل ہوجاتا ہے تو اسے سونے اور چاندی کے مثل صیقل کردیتا ہے۔
جب یہ تقوی ہی مومن کے لئے قربانی کے عمل پرآمادہ کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے مومن کی نشأۃ جدیدہ ہوجاتی ہے، اب وہ اپنا ہر عمل دین کے تقاضے، عقیدے مطالبے کے موافق کریگا، وہ صرف اللہ کا خوف کرے گا، وہ صرف دینی غیر ت اور حمیت سے پر ہوگااور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق خاطر مضبوط کرے گا اور اس کے اندر یہ بھروسہ پیدا کرے گا کہ ساری دنیا مل کر اگراس کو نفع پہنچانا چاہے تو اس کو نفع نہیں پہنچاسکتی، لیکن جو مقدر میں ہے، اور اگر ساری دنیا مل کر اسے کچھ نقصان پہنچانا جاہے تو اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے سوائے اس کے جو اللہ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہے۔
جس مومن کا تعلق مع اللہ مضبوط ہوتا ہے، اس کی نصر ت وتائید پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ دنیا خطرناک جنگلات سے نہ خوف کرتا ہے، نہ روئے زمین کے خطرناک صحراء اس میں خوف واندیشہ پیدا کرسکتے ہیں، وہ مصائب کے وقت تزلزل کا شکار نہیں ہوتا، آزمائش اور مصیبتوں میں وہ کمزور نہیں پڑتا، خوشی اسے مغرور ومتکبر نہیں بناتی، مادی ذرائع ووسائل اور خوش حال اور فارغ البال زندگی کا وہ متمنی نہیں ہوتا؛ کیوں کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ کے یہاں مقبول بندہ بنالیا ہے۔
اگر آج ہم عالمی اور ملکی سطح پر ہماری حالت پر نظر ڈالی تو پتہ چلے گا کہ ہم مسلمانوں نے عید الاضحی کے موقع سے مطلوبہ سبق حاصل نہیں کیا، ہم نے اس موقع کو اللہ عزوجل کے ساتھ تعلق استوار کرنے اور دین کے ساتھ اپنے رابطہ کو مضبوط کرنے اور زندگی کی ڈگر کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی، اس طرح کے مواقع سرسری انداز میں آجاتے جاتے ہیں، ہمارے زندگی پر اس کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہوتے، غافل شخص متحرک نہیں ہوتا،سویا ہوا جاگ نہیں جاتا۔
قربانی اور عید کے ان مواقع کے مسلسل آمد باجود ہم ضعیف اور کمزور ہیں، ہم ان مواقع دوبارہ لوٹ کر آنے پر ذلیل خوار ہیں، ہم کمزوری کو قوت اورذلت کو عزت بدلنے کی کوشش اورجدوجہد نہیں کرتے۔
اس سال ہم عید الاضحی اس حال میں منارہے کہ ہیں مسلمان ذلت وپستی اور نکبت وادبار کی حالت میں ہے، سارے دشمن ہمارے خلاف یکجا ہیں، ہمیں آسان تر لقمہ بناچاہتے، ہمارے دین پر الزام تراشی کر رہے ہیں، ہمارے درون خانہ بھی حملہ آور ہیں، ہمارے بھائیوں کو آپس میں منصوبہ بند شکل میں دست گریباں کر کے ہمار ی ہنسی اڑا رہے ہیں، ہمیں الزام دیا جارہا ہے، ہر طرح وسائل ابلاغ کا استعمال کرکے ہمارے دین دہشت گری کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے، وسائل وذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ باور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلامی تعلیم کے نتیجے میں ’’دہشت گرد‘‘ پیدا ہوتے ہیں، اسلامی ممالک کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اسلامی نہج تعلیم کو مغربی کمیونزم تعلیم کا چربہ بنادیں، جس کی وجہ سے معتدل علماء، معتدل دیندار، معتدل مفکرین پیدا ہوسکیں، مختصر یہ کہ اعتدال پسند مسلمان اس تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہوں، ورنہ تو اس ملک کو دہشت گرد ملک میں شمار کیا جائے گا، مغرب ومشرق میں کوئی نہایت مسلح اور منصوبہ بند انداز میں دنیا کے سوپر پاور کی قیادت میں تباہی وبربادی اور اجتماعی قتل کی مہم چلائی جارہی ہے۔
ان حالات کامقابلہ صرف اور صرف قوت ایمانی، ایثار وقربانی کے جذبہ سے کیا جاسکتا ہے، جس سے پتہ چلے گا کہ مومن کی زندگی پھولوں کا سیج نہیں، بلکہ کانٹوں کا مجموعہ ہے، مصائب صابر وشاکر، کاذب اور منافق مابین کے فصل کرتے ہیں۔
اللہ عزوجل کا ارشاد گرمی ہے :
’’ الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْن‘‘
(الم، کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی، حالانکہ ہم نے ان سب کی آزمائش کی ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ لہذا اللہ ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سچائی سے کام لیا ہے اور وہ یہ بھی معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔ ) ( العنکبوت 1=3)
اور ایک جگہ ارشاد گرامی ہے:
’’وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَکُمْ ‘‘ (محمد:31)
(اور بلا شبہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں یہاں تک کہ ہم جان لیں تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو اور ہم جانچ لیں تمہارے حالات۔ )
اور ایک جگہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں، :
’’لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُور‘‘ (آل عمران: 186)
(مسلمانو!تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں )
ابتلاء اور آزمائش کے مواقع میں صبر اور تقوی کو اختیار کرنے میں جو اللہ عزوجل نے حکمت رکھی ہے، اس سے خبیب اورطیب لوگ علاحدہ ہوجاتے، اپنے ایمان میں سچا اور جھوٹے مدعیان ایمان کے مابین فرق واضح ہوجاتا ہے، صبر اور تقوی یہ ثبات واستقامت کے اصل الاصول، ہیں یہ دونوں مومن کا ایسا سرمایہ ہیں جو کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوتے، جو شخص صبر اور تقوی کو اختیار کرتا ہے، وہ عزیمت پر عمل پیرا ہے، صبر وتقوی کو اختیار کرنے والے سے زندگی کے کسی بھی موقع سے ناکامی حاصل نہیں ہوسکی، وہ کبھی بھی قنوطیت اور اامیدی کا شکار نہیں ہوسکتا۔
دینی مواقع، اسلامی عیدیں بلکہ اسلام کے فرض کردہ تمام عبادات، خصوصی قربانی جسے مسلمان دس ذی الحجہ کو حضرت ابراہیم کی سنت کے طور پر انجام دیتا ہے، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم ہر قسم کی قربانی دیں سکیں، نفس کی، مال اور مختلف قسم مصائب اور مشکلات کا تحمل کریں، جسمانی، جانی، روحانی، عقلی، جذبات وخیالات قید وبند، جلاوطنی، اہل ووطن سے مفارقت ہر طرح کی قربانی کے دینے پر آمادہ ہوجائیں۔