Tuesday, 7 April 2015

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رزق کی قدردانی کریں






مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
09550081116

کھانے پینے کی اشیاء کے تعلق سے اس فراوانی او
ر بہتا ت کے دور میں اس کی ناقدری اور بے حرمتی ایک عام سے بات ہوگئی، بچے ہوئی کھانے کو محفوظ رکھ کر ا استعمال کو معیوب گردانا جاتا ہے؛ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ مغرب کی اندھی تقلید نے جہاں اقدار کے بہت سارے پیمانے بدل دیئے ہیں ، اسی طرح کھانے کے بچانے اور اس کے پلیٹ میں رکھ چھوڑنے کو ایک مہذب عمل سمجھاجاتا ہے اور پلیٹ کی مکمل صفائی اور پلیٹ کے بقیہ ریزوں کے استعمال اور اس کے کھالینے کو حقیر تر باور کیا جاتا ہے اور خصوصا شادی بیاہ کے موقع سے اسراف وفضول خرچی کے وہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں اور رزق کی بے حرمتی کے وہ مناظر نگاہوں سے گذرتے ہیں کہ الامان والحفیظ، اسراف وفضول خرچی کا ایک طومار ہوتا ہے ، مختلف کھانوں کی ڈشش نے تقاریب کے موقع سے رزق کی ناقدری کو بڑھاوا دیا ہے ، مختلف نوع بنوع کے کھانوں کے کھانے اور ہر ایک سے کچھ چکھ لینے کی نیت ناجانے کتنے کس قدر رزق کی بے حرمتی اور اس کی ناقدری کی وجہ بنتی ہے ، اگر ہم یہ اراد کرلیں کہ ہم رزق کی قدر کریں گے تو کتنے غریبوں کی بھوک علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہوسکتا ہے ، اور کتنے نانِ شبینہ کے محتاج اور سسکتے بلکتے اور فاقہ زدہ گھرانوں کی خوشیاں عود کر آسکتی ہے ، انانیت اور شہرت اور جاہ کی طلب نے بالکل اندھا کردیا ہے ، سوائے اپنے انا کی تسکین کے سوا ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، لوگوں میں اپنی شان  جتانے اور صرف ناک بلند کرنے کے خاطر ہمیں زرق کی ناقدر ی اور بے حرمتی منظور ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینا منظور ہے ، لیکن اپنی شان نہ جائے ، شخصیت پر آنچ نہ آئے۔
میری نگاہوں سے رزق کی قدر دانی کے تعلق سے دو واقعات گذرے انہیں کی روشنی میں اس گناہِ عظیم اور ہمارے معاشرے کے اس عظیم روگ کے تعلق سے نشاندہی کرنا چاہتاہوں ، خدا را ان واقعات کو عبرت کی نگاہ سے پڑھئے ۔
حضرت مولانا مفتی تقی صاحب نے اپنی کتاب ذکر وفکر میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے :
ایک مرتبہ میرے والد ماجد حضرت مولانا سید اصغر حسین (جو میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے )کے گھر ملاقات کے لئے گئے ، کھانے کا وقت آگیا تو بیٹھک میں دسترخوان بچھا کر کھانا کھایا گیا، کھانے سے فارغ ہونے پر والد صاحب دسترخوان سمیٹنے لگے ؛ تاکہ اسے کہیں جھٹک آئیں، حضرت میاں صاحب نے پوچھا: ''یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ والد صاحب نے عرض کیا کہ: حضرت دسترخون سمیٹ رہا ہوں، تاکہ اسے کسی مناسب جگہ پر جھٹک دوں ، میاں صاحب بولے ، کیا آپ کو دسترخوان سمیٹنا آتا ہے ، ؟ میاں صاحب نے جواب دیا : جی ہاں ، یہ بھی ایک فن ہے اور اسی لئے میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ کام آتا ہے یا نہیں ، والد صاحب نے درخواست کہ حضرت ! پھر تو یہ فن ہمیں بھی سکھا دیجئے ، میاں صاحب نے فرمایاکہ آیئے ! میں آپ کو یہ فن سکھاؤں ۔یہ کہہ کر انہوں نے دسترخوان پر بچی ہوئی بوٹیاں الگ کیں ، ہڈیوں کو الگ جمع کیا، روٹی کے جو بڑے ٹکڑے بچ گئے تھے ، انہیں چن چن کر الگ اکٹھا کر لیا، پھر فرمایاکہ: میں نے ان میں سے ہر چیز کو الگ جگہ مقرر کی ہوئی ہے ، یہ بوٹیاں میں فلاں جگہ اٹھا کر رکھتا ہوں ، وہاں روزانہ بلی آتی ہے اور یہ بوٹیاں کھالیتی ہے ، ان ہڈیوں کی الگ جگہ مقر ر ہے ، کتے کو وہ جگہ معلوم ہے اور وہ ہاں سے آکر یہ ہڈیاں اٹھا لیتا ہے ،اور روٹی کے یہ ٹکڑے میں فلاں جگہ رکھتا ہوں ، وہاں پرندے آتے ہیں اور یہ ٹکڑے ان کے کام آتے ہیں اور یہ جو روٹی کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں یہ میں چیونٹیوں کے کسی بل کے پاس رکھ دیتا ہوںاور یہ ان کی غذا بن جاتی ہے ۔اور پھرفرمایا کہ : یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کا رزق ہیں ، ان کا کوئی حصہ اپنے امکان کی حد تک ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ (مولانا تقی عثمانی ،ذکر وفکر:٤٣)۔
دیکھئے سنت کے متوالے ، اللہ کے لاڈلے ، انسانیت نہیں بلکہ ہر ذی روح کے ساتھ کے ہمدرد لوگ جب کھاتے ہیں تو صرف پیشِ نگاہ ان کی ذات ہی نہیں ہوتی ؛ بلکہ ان کی غذا اور کھانے میں مختلف جانوروں کا بھی حصہ ہوتا ہے ۔
اس وقت پیسوں اور مال ودولت کی فراوانی میں جو ہم رزق کے ضیاع اور بے حرمتی کے نقوش پیش کر رہے ہیں ، کبھی خدانخواستہ احوال زمانہ ہمیں کنگال اور بالکل غریب اور نہتا اور مفلس کردیں تو ہمیں رزق کی قدر واہمیت کا اندازہ ہو ۔بھوک وفاقہ کی تکلیف اور درد کی قیمت کا اندازہ لگے ۔
ایک عربی ادیب محمد بن عبد العزیز نے رزق کی حرمت اور پاسداری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ : ایک شخص نے اپنے پڑوسی کو عصر کی نماز کے بعد کوڑے دان کے پاس اس میں سے کچھ لے کر اپنے گھر جاتے دیکھا ، تو اس کو یہ اندیشہ ہوا کہ شاید یہ شخص محتاج اور نادار ہے اور مجھے اس کا پتہ بھی نہیں ، چنانچہ میں نے اس سے ملاقات اور اس کے احوال کی جانکاری اور کوڑے دان سے اسے کچھ اٹھاتے جو دیکھاتھااس سے متعلق پوچھنے کا ارادہ کیا ، جب میں اس سے ملاقات کے غرض سے اس کے پاس گیا تو وہ بہترین غنی اور مالداری کی حالت میں تھا، میں اس سے کوڑے دان سے کھانے اٹھانے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے کوڑے دان میں کھانے کے قابل کھانے کو پڑا دیکھا تو اس کے پھینکے ہونے سے اچھا نہیں لگا ، میں نے اس کو لینے اور اس کے بجائے اس غلیظ جگہ میں پڑے رہنے کے اس کے اکرام میں بہتری سمجھا۔
اس نے بتایا کہ ایک دفعہ میں فاقہ کی شدید حالت سے گذرا، تب سے میں نے یہ عہد کیا ہے کہ میں کھانے اور زرق کی بے حرمتی نہیں کروں گا، میرے ساتھ قصہ کچھ یوں درپیش ہوا کہ مکہ میں مجھے ایک سال بالکل فاقے گذارنے پڑے ، نہ میرے پاس کوئی پیسہ تھا اور نہ مجھے کوئی کام مل پارہا تھا، میں صبح کام کی تلاش میں نکلتااور رات میں کچھ کام نہ ملتا تو گھر آکر سوجاتا، میری بیوی اور بیٹی روزانہ اس انتظار میں ہوتیں کہ میں کچھ لے آؤں اور ان کی بھوک کا مداوا کروں ، جب معاملہ حد سے گذرنے لگا اور تین دن فاقہ میں گذر گئے تو میں نے بھوک مٹانے کے خاطر اپنی حسین وجمیل اور اکلوتی بیٹی کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا، اس کو بنا سنوار کربازار لے گیا، ایک دیہاتی کی نظر لڑکی پر پڑی ، اس نے لڑکی کودیکھاتو اسے پسند آگئی ، اس نے مجھ سے لڑکی کے تعلق سے بھاؤ تاؤ کیا، چاندی کے بارہ ریال پر راضی ہوگی، جیسے ہی میں نے درہم اس کے ہاتھ سے لئے تو اس کو لے کر کھجور کے بازار کی جانب دوڑ پڑا، پیٹ بھرنے کے خاطر کھجور کی ایک زنبیل دو ریال کے عوض خریدی اور ایک قلی کو اس کے اٹھانے کے لئے خرید لیا، بھوک کی شدت کی وجہ سے مجھے اس کے اٹھانے کی طاقت نہ تھی، میں اس سے پہلے گھر پہنچ گیا، گھر پہنچنے پر پیچھے تو دیکھا تو قلی نظر نہیں آیا، میں اس کی تلاش میں نکل پڑا، پھرمیں نے سوچا: میں بازار جا کر دوسری کھجور خرید لیتا ہوں میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ بقیہ ریال بھی گم ہوگئے تھے ، مجھ پر بہت زیادہ مایوسی اور غم طاری ہوگیا، میں نے حرم شریف میں جانے کا عزم کیا، جب میں مطاف میں پہنچا تو وہ دیہاتی میری لڑکی کے ساتھ نظر آیا، میرے دل میں خیال آیا کہ جب یہ مکہ سے نکلے گاتو وہاں کسی گھاٹی میں گھات لگا کر اسکا قتل کر کے اس سے اپنی لڑکی کو آزاد کر لوں گا، میں طواف کر رہا تھا تو وہ مجھے نظریں چرا کر دیکھنے لگا اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے مل گئیںبتاؤ یہ لڑکی کون ہے ؟ میں نے کہا : یہ میری باندی ہے ، اس نے کہا : نہیں یہ تیری بیٹی ہے میں نے اس سے پوچھا ہے ، اس لڑکی نے کہا یہ میرے والد ہیں ، اس نے کہا: تم نے ایسا کیوں کیا، میں نے کہا: ہم تین دن سے فاقہ سے تھے ، موت کے اندیشے اور ہم تینوں کی ہلاکت کے خوف سے میں نے ایسا کیا ، پھر میں نے لڑکی کی قیمت اور اس کے گم ہوجانے کے تعلق سے اس کو بتلایا کہ مجھ کو اس رقم سے کوئی نفع نہیں ہوا، تو اس دیہاتی نے کہا: اپنی لڑکی لے لواور آئندہ ایسا نہ کرنا، اس نے ایک تھیلی نکالی جس میں تیس ریال تھے ، اس میں سے تقسیم کر کے آدھے مجھے دیئے۔
میں بہت خوش ہوا ، اس کے لئے اللہ سے دعا کی اور اس کے فضل واحسان پر اس کے گن گائے اور اپنی لڑکی کو لے کر کھجور خریدنے کے لئے بازارگیا تو مجھے وہ قلی نظر آیا ، میں نے اس سے پوچھا: تم کہاں تھے ؟ اس نے کہا: چچاجان آپ تو جلدی جلدی چل رہے تھے ، مجھے تو راستہ ہی نظر نہ آیا، میں نے آپ کے تلاش کی بہت کوشش کی ، تلاش بسیار کے بعد بازار واپس چلاآیا، میں نے کہا: وہ کھجور لے آؤ، جب ہم واپس ہو کر گھر میں داخل ہوئے اور برتن میں کجھور خالی کرنا چاہاتو وہیں مشک کے نیچے وہ درہم موجود تھے ، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے یہ علم ہوگیا کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے، پھر اس وقت سے یہ عزم کیاکہ ہمیشہ اللہ عزوجل کی نعمتوں اور اس کے رزق کی قدردانی کروں گا ، کبھی بھی رزق کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھوں گا اور نہ اسے پھینکوں گا اور نہ کبھی کھانے کو کوڑے دان میں یا گندی میں پڑا رہنے دوںگا۔(القصة القصیرة ودورھا فی نشررسالة الاسلام، الدکتور محمد فضل اللہ شریف)
یہ واقعہ رزق کی قدر دانی کے تعلق سے نہایت عبرت خیز ہے ، رزق کی اہمیت کا اندازہ فاقہ اور بھوک کی شدت میں ہی لگایا جاسکتا ہے ، اس لئے زرق کی بے حرمتی اور ناقدری سے بچیں، اس کے ذریعہ غریبوں ، مسکینوں ،اوربھوکوں کی بھوک مٹانے کا نظم کریں ، شادی بیاہ ، دعوتوں اور تقاریب کے موقع سے اور ہوٹلوں میں رزق کے ضیاع سے حفاظت کر کے ہزاروں بھوکے لوگوں کے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں، اس لئے آج ضرورت اس بات کی محض اپنے شان رکھنے کے لئے کھانے کے ضیاع اور اللہ کی نعمت کی ناقدری کرنے والے نہ بنیں، اللہ کی ناراضگی اور اس کی نعمت کی ناقدری کہیں اس کے غضب کے نزول کا سبب نہ بن جائے اور ہم سے بھی اس نعمت کی ناقدری کی وجہ سے وہ نعمت چھن نہ جائے اور ہمیں بھی برے اور بھیانک احوال سے گذرنا نہ پڑے ۔

No comments:

Post a Comment

مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل، MOLANA GAYAS AHNMED RASHAdI

  مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل رفيع الدين حنيف قاسمي، اداره علم وعرفان ، حيدرآباد در نایاب، یگانہ روزگار ، ممتازفعال، مت...