بسم اللہ
الرحمن الرحیم
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
رفیع الدین حنیف
قاسمی، وادیٔ مصطفی ، شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90@gmail.com
ہندستان روز اول سے ہی
مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں اور مختلف اطوار اور جداگانہ روایت ورواجوں کی آمجگاہ
اور سنگم رہا ہے ، یہاں کی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ تقریبا ہر اسٹیٹ کے بدلنے پر
نہ صرف یہ کہ تہذیب اور ثقافت ، رکھ رکھاؤ اور طرز معاشرت میں تنوع اور ہمہ رنگی
نظر آتی ہے ؛ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ بولیاں بھی بدل جاتی ہے، شاید ہی دنیا کے
منظر نامہ پر کوئی ایسا ملک ہو جہاں اس قسم کی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی
ہوں، یہاں ہندو برادران وطن بھی رہتے ہیں ،مسلمان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں، عیسائی
، سکھ ، پارسی، بدھ مت کے ماننے والے ،نہ جانے کتنے مذاہب اور عقائد کے حامل یہاںکی
اس دھرتی پر بستے ہیں ، لیکن ہندو توا وادیوں ، آر یس یس ، بجرنگ د ل، ویشوہند پریشد،
شوسینا وغیرہ ان تنظیموں نے ہمیشہ ہی نفرت کی بیچ بونے کی کوشش کی ہے اور مختلف
مذاہب اور یہاں کے سیکولرزم اور جمہوریت کے لئے یہ ہمیشہ ہی خطرہ بنے رہے ہیں ، اب
جب کہ ہندستان کے سیاسی منظر پر بی جے پی
اکثریت سے جیت کر دلی کی گدی پر براجمان ہوچکی ہے ، جس کے اکثر کارکنا ن آریس یس
اور دیگر تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں ،انہوں نے تو بر سر اقتدار آتے ہیں مسلمانوں
کے خلاف نفرت کی سیاست شروع کردی تھی، صرف نو ماہ کی مدت میں نہ جانے آریس یس کے
ہندو انتہا پسند مذہبی منافرت کو ہوادینے کے لئے نہ جانے کتنے ایشوز اٹھائے اور نت
نئے مسائل کھڑے کئے اور اقلیتوں اور خصوصامسلمانوں کوہراساں اور تنگ کرنے کے لئے
نہ جانے کتنے شوشے چھوڑے، لوجہاد، گھر واپسی وغیرہ کی نفرت آمیز اصطلاحات کے ذریعے
اقلیتوں میں عدم احساس کا سماں بنائے رکھا، واقعتا اقلیتوں کے خلاف روزانہ نت نئے
مسائل سے مسلمان اس قدر تنگ آچکے تھے کہ وہ ہر وقت یہ دعاگو تھے یہ نفرت کے بادل
کب چھٹ جائیں ، محبت ومودت اور بھائی واخوت ، اہنسا وآپسی رکھ رکھاؤ کی جدوجہد میں سب مصروف تھے، مذہبی شدت پسندی کو
اس قدر ہوا دی گئی کہ نہ صرف یہ ہندوستانی عوام ملک کے موجودہ حکومت کے شر پسند
عناصر اور بی جے بی سے بھی تنگ آچکی تھی، جس کی دلیل لوک سبھا انتخابات کے بعد
ہونے والے نتائج میں بی جے پی کے ووٹ فیصد میں ہوتی ہوئی کمی تھی، دلی میں عآپ کی
جیت نے بی جے پی کی رہی سہی عزت ووقار پر مٹی پوت دی، پھر اس کے علاوہ بی جے پی کے
مختلف ایم پیز جب اپنے ہندوستانی مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز بیان بازیاں کر
رہے تھے تو نہ صرف یہ کہ ملک کی عوام نے اس اوجھی، نامناسب اور تکلیف دہ عدم روادی
دھتکار دیا ؛ بلکہ امریکی صدر نے بھی یوم جمہوریہ پر اپنی آمد کے موقع سے ہندستان
میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور انہیں بار بار یہ دہرا
پڑا کہ مجھے یہ گاندھی عدم رواداری پر مبنی اس ہندوستان کو دیکھتے تو ششدر رہ جاتے
،۔
ہندوستان میں مذہبی اقلیات
کے ساتھ تشدد ہوتا رہاہے ، مختلف پیرایوں میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کوہراساں
کیا جاتا رہا ؛ لیکن ملک کے وزیر اعظم سمیت حکومت کے بڑے عہدیداران خاموشی اختیار
کئے رہے ، انہوں اپنی خاموشی کو نہیں توڑا، جب سر سے پانی اونچا ہونے لگا، تو
انہوں نے بھی خاموشی توڑنا ہی مناسب سمجھا؛لیکن بی جے پی کے اعلی عہدیدران وزیر
اعظم سمیت کر بھی کیا سکتے تھے ، اسی آریس یس اور ہندتوا تنظیموں اور ان کی
کارکنان کی سخت محنت وجدوجہد کے بعد بی جے پی دلی کے سیٹ پر براجمان ہوئی تھی، تجزیہ
نگاروں کو یہ شدت سے انتظار تھا کہ وزیر اعظم مذہبی اقلیتوں کے خلاف مختلف نت نئے
پیرایوں میں ہونے والے تشدد اور منافرت کے خلاف اپنی خاموشی توڑیں،بلکہ نیوریاک
ٹائمز نے بھی اس سرخی کے ساتھ وزیر اعظم کی اس خاموشی کو ہدف تنقید بنایا''مودی کی
خطرناک خاموشی'' مزید لکھا تھاکہ گھر واپسی یا مذہب تبدیل کرانے کے نام پر جو عدم
روادای ملک میں برتی جارہی ہے مودی کی مسلسل خاموشی اس تاثر کو تقویت دی رہی ہے کہ
یا تووہ ہندو قوم پرست بازو کے ان سخت گیر عناصر کو کنٹرول نہیں کرسکتے یا پھر
عمدا کرنا نہیں چاہتے ۔
آخر کار اپوزیشن اور بیرون
ملک کے مسلسل مودی پر حملے اور ان کی خاموشی پر تبصرہ کے بیچ وزیر اعظم نریندر مودی
نے اپنی خاموشی توڑ ہی دی اور انہوں نے برملا اورکھلا عام یہ کہہ دیا کہ ملک میں
کسی بھی طرح کی مذہبی شدت پسندی برداشت نہیں کی جائے گی، اور میری حکومت اس بات کو
یقینی بنائے گی کہ سب کو پوری آزادی ہو اور بغیر دباؤ کے ہر ایک کو کوئی بھی مذہب
اپنانے کی اجازت ہوگی، مزید کہاکہ : کسی بھی مذہب کے کسی بھی گروپ کو مذہب کی بنیاد
ر تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انہیں سخت کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن
سب کا ساتھ سب کا وکاس کے مانند وزیر اعظم کا یہ بیان صرف بیان نہ رہ جائے ، اس
سلسلے میں شدت سے سخت گیر عناصر کے خلاف ایکشن لیا جائے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم کا یہ
بیان اس تناظر میں آیا ہے کہ مہا شیوراتر ی کے جشن سے ٹھیک قبل واشنگٹن میں ایک
مندر کی دیوار پر نفرت پھیلانے والا پیغام لکھ دیا گیا اور وہاں بنے مذہبی علامتی
نشانوں پر اسپرے کردیاگیا، جس میں گیٹ آوٹ یہاں سے چلے جاؤ لکھا تھا اور اور ایک
اسکول پر بھی ایک علامتی نشان بنا کر وہاں لکھا گیا تھا مسلمانوں یہاں سے نکلو، وزیر
اعظم نے عیسائی مذہبی رہنماؤں کے بیچ یہ بیان دیا۔بہر حال مذہبی شدت پسندی اور
تعصب پرستی کے خلاف نریندر مودی نے آخر اپنی خاموشی توڑ دی ہے ؛ لیکن غور طلب یہ
امر ہے کہ نیوریاک ٹائمز کا تبصرہ ہو یا بارک اوباما کاموجودہ حکومت کو جمہوریت
اور سیکولزم کے سبق دینے کا معاملہ، اس مشہور انگریزی روزنامہ اورخود امریکی صدر
کو غصہ اس لئے آیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سمیت عیسائیوں کو ہراساں اور پریشان کیا
جارہاتھا، دنیا نے مل جل کر مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور مسلمانوں کو پریشان کرنا
اپنا وطیرہ اور وظیفہ حیات اور اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے ، اگر عیسائی چرچس اور
عبادت گاہوں پر حملے نہ ہوتے اور عیسائیت کے تعلق سے ہندو تعصب پرست اپنی دریدہ
دہنی کا اظہار نہ کرتے تو شاید بارک حسین اوبا اور نیوریاک ٹائمز جیسے اخبارات کو
بھی کسی قسم کی تبصرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ بھی دیگر ممالک میں ان کی
طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے مثل یہاں پر مسلمانوں پر ہونے والے
ظلم چپ ساتھ لیتے ،یسے ہی وزیر اعظم نریندری اب تک ہندو مذہب پر تشدد ہوتے ہوئے نہیں
دیکھ رہے تھے ، ہندو مذہب کی توہین ہندوستان میں نہیں ہور ہی تھی؛ دیگر دوسری اقلیتوں کے خلاف صرف تعصبانہ
رویہ اختیار کیا جارہا تھا ، اب جب واشنگٹن وغیرہ میں ہندو منادر وغیرہ پرہندو
مذہب کے خلاف رکیک اور ہتک آمیز جملے لکھے ہوئے پائے گئے تواب وزیر اعظم کی غیرت
جاگی اور انہوں نے اپنی طویل خاموشی توڑتے ہوئے تعصب ، شدت پسندی، مذہبی منافرت
اور بالجبر تبدیلی مذہب کی مذمت اور برضاورغبت قبولیتِ مذہب کے معاملے آزادی والی
بات کہی، اور قانون کے خلاف کرنے والوں کی سخت گرفت اور شکنجہ کسنی کا پیغام دیا،
خواہ وزیر کا اس وقت اخوت وبھائی چارگی اور شدت اور نفرت کے خلاف بیان ہو یا بارک
اوما اور نیویارک ٹائمز کا ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر
تبصرہ ہو ، ہر ایک کو بس فکر اپنے مذہب کی حفاظت کی پڑ ی ہے، مسلمانوں کا پرسان
حال اللہ ہے ، دونوں کی آپسی رشہ کشی اور دونوں جگہ چرچوں اور منادر پر حملے کے
تبادلے نے ہر ایک کو سیکولرزم اور جمہوریت کی طرف پھر عود کرآنے کا سبق دیا اور
انسانیت کے احترام کی تعلیم دی ہے ،جس پر یہ دونوں شاید عمل پیرا ہوں تو ٹھیک ورنہ
نہ تو نریندری مودی کے ساتھ اس طرح کی توقع کی جاسکتی ہے ، نہ ہی امریکہ کے ساتھ
اس طرح کی مذہبی رواداری پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کی امید کی جاسکتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment