Tuesday 29 March 2022

مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل، MOLANA GAYAS AHNMED RASHAdI

 

مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل


رفيع الدين حنيف قاسمي، اداره علم وعرفان ، حيدرآباد

در نایاب، یگانہ روزگار ، ممتازفعال، متحرک شخصیت، جہد مسلسل، عمل پیہم کاپیکر، ایک مرد مجاہد جس نے رفاہی وفلاحی کاز میں اپنی شخصیت لوہا منوایا ہے ، نہ صرف ایک عظیم عالم دین ہیں، بہترین قلمکار ہیں، بے باک خطیب ہیں، سینکڑوں کتابوں کے بہترین مقبول مصنف بھی ہیں، سب سے بڑا عظیم کارنامہ امت کا عظیم رفاہی وفلاحی ادارہ ''صفابیت المال'' کا قیام اور اس کے رفاہی کاموں کی وسعت ہے ، چند سالوں میں شہر حیدرآباد ہی نہیں ؛ بلکہ ہندوستان کی سطح پر مولانا نے رفاہی وفلاحی کاموں کا ایک عظیم جال بچھایا ہے ، جو تنظیم وترتیب اور نسق ونظم کے ساتھ اپنے فعال اور متحرک کارکنوں کے زیر اثر مختلف آفات سماوی ،فسادات کے مواقع ،بیماروں ، معذوروں مجبوروں بے کسوں غریبوں ومحتاجوں، مفلوک الحال لوگوں تک پوری تحقیق وجستجو کے بعد امداد کے پہنچانے کا کام کرتا ہے ، مولانانہایت دور اندیش، دور بین نگاہ، باریک بیں زیرک اورعظیم ذہین وفطین واقع ہوئے ہیں، جہاں مولانا تصنیف وتالیف کے میدانوں میں خوب ہمہ جہت اور متنوع کام انجام دیئے ہیں، جس سے امت مختلف موضوعات پر ان کے کاموں سے مستفید ہورہی ہے ، امامت وخطابت کی خدمت کے علاوہ منصب تدریس کو بھی زینت بخشا ہے ، تصنیف وتالیف کے کام کو منظم کرنے کے لئے باقاعدہ ''مکتبة سبیل الفلاح '' کا قیام عمل میں لایا ، جس کے تحت سینکڑوں اصلاحی کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں، مولانا کی ''روح قرآن'' جو ١٣٠٠پر مشتمل خطباء وائمہ کے قرآنی آیات کا مختلف مفید عناوین پر ایک نہایت جامع اور مفید مجموعہ ہے ، جس کی کوئی نظیر اور بدل نہیں، یوٹوب پر درس قرآن کا سلسلہ بھی ہے جو ابھی بھی جاری ہے ، مختلف مفید کتابیںکئی ایک مدارس میں داخل نصاب ہیں،جن میں دینی گرمائی کورس، چراغ دینیات، سیرت کوئز ، بچوں کی اسمبلی وغیرہ شامل ہیں، اس کے علاوہ مولانا ممبر ومحراب فانڈیش کے بانی بھی ہیں، جس کا قیام ٢٣اکٹوبر ٢٠١٧کو عمل میں آیا، اس کے تحت دس ہزار سے زادہ ائمہ وخطبہ کو مختلف موجودہ احوال کے تناظر میں خطبات ارسال کئے جاتے ہیں۔اس کے تحت ہزاروں زنانہ مکاتیب حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں اس دین بیزاری کے ماحول میں نہایت فعال طریقے پر کام انجام دے رہے ہیں۔

صفابیت المال عظیم کارنامہ

سب سے بڑا اور عظیم کام صفا بیت المال کا قیام ہے ، جس کی بنیاد ٢٦نومبر ٢٠٠٦ ء کو رکھی گئی ہے، جس کا مقصد انسانیت کی بنیاد پر خدمت خلق کے کام کو انجام دینا ہے ، ابتدائی مرحلہ میں مولانا نے ٢٠٠٧ء میں بیت المال کو خود مکتفی بنانے کے لئے ایک اسکیم'' اسکراپ کا نظام '' عمل میں لایا؛تاکہ اسکراپ کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی رقم کو خدمت خلق کے کام میں استعمال کیاجائے ، صرف اسکراپ وصولی کے ذریعہ تقریبا ٦٠ سے زائد خاندان کی معاشی کفالت کی جاتی ہے ، مزید اس کے علاوہ ''ڈبہ وصولی'' کی مہم بھی ہے ، جس سے ٣٠٠٠ ہزار سے زائد چندہ وصولی کے ڈبے ہیں، جس میں لوگ اپنے عطیات دیتے ہیں، ماہامہ ممبر شپ کا سلسلہ ہے ، جس میں ٢٥٠٠تا ٣٠٠٠ سے زائد ممبر ہیں، جو ہر ماہ عطیہ فراہم کرتے ہیں، جس سے صفا بیت المال کی مختلف رفاہی خدمات کا طویل سلسلہ قائم ودائم ہے ، صفا بیت المال کے ذریعہ ''واٹر پلانٹ' 'بنام''سلسبیل الصفائ'' قائم ہے ، جس کے تحت موسم گرما میں مختلف جگہوں پر خصوصا عثمانیہ دواخانہ ، ای این ٹی ہاسپٹل ، میٹرنٹی ہاسپٹل میں فلٹر پانی مہیا کیا جاتا ہے ، جس سے ہزاروں مریض اور تیمار دار روزانہ مستفید ہوتے ہیں، گھر گھر سروے کر کے معذور ، مریض ومستحق افراد کی تلاج وکھوج کے بعد ان افراد کو سفید راشن کارڈ فراہم کیا جاتا ہے ، اس کے ذریعہ ان کو مفت ادویہ ، مفت میڈیکل ٹیسٹس کرائے جاتے ہیں، ''صفاہیلت کیر'' بھی ایک صفال بیت کافعال اور متحرک یونٹ ہے ، جس تحت تین کلنک :سنگارینی کالونی، حافظ بابانگر اور کشن باغ میں قائم ہیں، جس میں ڈاکٹرس، نرسس اور میڈیکل کا عملہ موجود ہے، اسی طرح حافظ بابانگر میںڈائکناسٹک سنٹر موجود ہے ، جس میں تمام میڈیکل کیمپوں اور اور ہیلت کیئر کے بیمار مریضوں کے ٹیسٹ فری میں کئے جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہر ماہ مختلف جگہوں پر تین یا چار میگا میڈیکل کیمپس منعقد ہوتے ہیں، ملک ہندوستان بھر کی تقریباً گیارہ ریاستوں، یعنی تلنگانہ ، آندھراپردیش ، کرناٹک ، مہاراشٹر ا ، اڑیسہ ، جھارکھنڈ ، آسام ، بہار ، مغربی بنگال ، اتر پردیش اورمدھیہ پردیش میں صفابیت المال انڈیا کی ٧٠سے زائد شاخیں ہیںجو مرکزی صفابیت المال انڈیا کے زیرانتظام ہیں،صفا بیت المال کی جانب سے رمضان المبارک میں حیدرآباد اورملک کی ان گیارہ ریاستوں کے دس ہزار سے زائد خاندانوں تک کئی کروڑروپیے مالیتی ''رمضان راشن '' تقسیم کیا جاتا ہے ، صفابیت المال کے زیر اہتمام منظم انداز میں مشتر کہ قربانی اوردیہاتوں میں گوشت کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے ۔ '' قربانی آپ کی ' خدمت ہماری ،فائدہ غریبوں کا'' کے تحت ملک کی گیارہ ریاستوں کے متعداد اضلاع کے ٦٠٠ سے زائد دیہاتوں میں گوشت کی تقسیم کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

 ۔علاوہ ازین صفا بیت المال ک تحت ١٩٠جملہ مساجد تلنگانہ ، آندھراپردیش ، آسام ، جھارکھنڈ، بہار ، کشمیر وغیرہ میں تعمیر کی گئیں ،ن ریاستوں کی مساجد اوردیگر علاقوں میں ٦٠٠سے زائد بورویلس ڈالے گئے ،جس سے اہل وطن استفادہ کر رہے ہیں ۔کمیونٹی ٹرینگ اینڈپروڈکشن سنٹر کا قیام گذشتہ ماہ عمل میں لایا گیا جس سے سینکڑوںخواتین کو معیاری ملبوسات کی سلائی کی تربیت دی جارہی ہے ، اس میں مہارت حاصل کر لینے کے بعد انہیں باضابطہ روزگار فراہم کیا جاتا ہے،اس کے علاوہ حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں ٹیلرنگ سنٹر قائم ہیں، جس سے خواتین مستفید ہور ہی ہیں اور خود کفیل ہورہی  ہیں، اس کے علاوہ صفا بیت المال ٢٠٠ سے زائد یتیم بچوں کی مستقل کفالت کرتا ہے ، ان کی تعلیمی ضررویات کی تکمیل کی جاتی ہے ، اس کے علاوہ ہر سال ماہ جون میں سروے کے بعد ١٠٠٠ بچوں کو تعلیمی کیٹس دیئے جاتے ہیں، سینکڑوں بیواؤں کو ماہانہ ٢٠٠٠ ماہانہ وظیفہ دیاجاتا ہے ، ٣٥ سے زائد ایسے گھرانوں کی کفالت کی جاتی ہے جس میں دو یا دو سے زائد معذور ہوتے ہیں، نادار ولاوارث میتو ں کی تجہیز وتکفین بھی کی جاتی ہے ، آئی ٹی کمپنیوں کی جانب سے بچے ہوئے کھانے کو لا کر کشن باغ کے ٥٠٠ گھرانوں میں تقسیم کیاجاتاہے ، صفا بیت المال سے ماہنامہ''سلسال سبیل'' اردو انگریزی میں شائع ہوتاہے ، جس میں صفا کی تمام کارگزاری رپوٹس شامل ہوتی ہیں،تمام صفا بیت المال کی آمد واخراجات کمپوٹرائزڈ ہیں، اس کے علاوہ مطالعہ کے لئے صفابیت المال کی لائبریری اور اسٹاف کے لئے مکمل دفتری نظام اعلی اور مکمل سہولیات کے ساتھ کارکرد ہے ۔

 اس کے علاوہ صفا کی جانب سے لاک ڈاؤون میں نہایت اعلی سطح پر خدمت خلق اور انسانیت کی بنیاد پر ''راشن تقسیم '' کام انجام دیا گیا،، جس میں لوگ اپنی بھوک اور پیاس مٹا سکے، اس کے علاوہ حیدرآباد میں٢٠٢٠ء میں آئے ہوئے سیلاب کی موقع سے بھی مولانا کی خدمات بڑی قابل دید تھی،صفا بیت المال کے کارکنان ہر جگہ اول وقت میں متحرک ہوگئے، ہر طرح کی ضروریات کے سامان ایک چھت تلے متاثرین کو فراہم کیا، اس کے علاوہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران گیاس اور کورنا کیٹس اور ابتدائی طبی امداد کے طور پر بڑے پیمانے پر خدمت انجام دی گئی، صفا بیت المال ہر دم ہنگامی خدمات کو بھی بڑے پیمانے پر انجام دیتا رہتا ہے ، یہ مولانا کی متحرک اور پر اثر شخصیت کا کمال ہے۔

کچھ خیالات وتأثرات

مولانا کی ہمہ جہت ، متحرک اور فعال شخصیت کا مشاہدہ بذات خود اپنی آنکھوں سے کیاہے ، ایک دفعہ مولانا کی ہماری بستی وادی مصطفی میںچھوٹے دکانوں میں کاروبار کی وسعت کی غرض٥ہزار مفت دوکان کے سامان کی فراہمی کے تحت بستی میں سروے کے لئے بذات خود آنا ہوا، میں ساتھ تھا، آٹھ بجے سے نو بجے تک مسلسل بالکل سلم بستی کا مولانا نے میرے ساتھ سروے کیا، ہر دکان پر جاتے ، تحقیق کرتے ، تحقیق کے بعد اس دکان کا نام لکھوالیتے ، ہر جگہ پر لوگو ں کے احوال دریافت کرتے ، بیماروں کے لئے مفت علاج کا پتہ فراہم کرتے ، بے کس معذورین کے حالات دریافت کرتے، چلتے چلتے امداد فراہم کرتے ، ایک جگہ پر ٹھہر گئے وہاں پر مولانا نے ایک شخص کو '' سلور '' کی کف گیر بناتے دیکھا ، ہنر کو دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے ، جہاں سخت دھوپ میں تھک ہار گئے تو میں نے دریافت کیا کہ مولانا آپ کو اتنی سخت دھو پ میں تحقیق اور سروے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کے نمائندے کرلیتے ؟تو مولانا نے فرمایا: امت مجھ پر بھروسہ کرتی ہے ۔

بستی میں کئی دفعہ کئی مواقع سے امداد فراہم کی، جب شاہین نگر کے علاقہ میں سیلاب آیاتو مجھے فون کر کے وادی مصطفے کے احوال دریافت کئے ،ہنگامی امداد کے طور پر کھانے کے پیاکیجس بھیجے، لاک ڈاؤن کے موقع سے ائمہ ومؤذنین کے لئے وادی مصطفی میں تمام مساجد کے ائمہ ومؤذنین کے براہ راست اکاؤنٹ نمبرس لے کر ان کو ٥ ہزار کی امداد فراہم کی، جس میں ان کی عزت نفس کاخوب خیال رکھا کہ صرف اکاونٹ نمبر اور مسجد کی تصویر لے ان کے اکاؤنٹ میں براہ راست امددا پہنچائی، اس کے علاوہ مولانا کو دیکھا کہ علماء اور واقعی مجبور وبے بس لوگوں کی امداد کرتے ہیں، اور بالکل خاموش انداز میں ان کی عزت نفس کا پورا خیال کرتے ہوئے، کسی کی بھی عزت نفس پر آنچ آئے اس کو بالکل برداشت نہیں کرتے ، خصوصا علماء کی مجبوریوں اور مسائل کو ذاتی طور پر سنانے کے لئے کہتے ہیں اور سب کے سامنے اس کے اظہار وافشاء پر ناراض ہوجاتے ہیں۔

ایک دفعہ گذشتہ سال بقرعید کے موقع سے دفتر صفا بیت المال جانا ہوا، مولانا کی متحرک اور فعال شخصیت کو جو ایک نہیں کئی ایک ذمہ داریوں کو پوری تندہی کے ساتھ انجام دی رہی ہے ، اس کا ایک جیتا جاگتا نمونہ میں نے دیکھا کہ دفتر پہنچا تو مولانا کی ایک تفسیربنام '' عام فہم درس قرآن'' موجود ہے ، جس سے میں واقف نہیں تھا، اور میرے یہاں ''علماء دیوبند کی تفسیری خدمات '' پر کام چل رہا تھا، اس تفسیر کی پہلی جلد دیکھی تو اس کے تعارف کو شامل کرنے کی غرض سے مولانا کو فون کیا تو دفتر میں اپنے کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے ، بلایا اور میں نے مولانا کو دیکھا کہ اس تفسیر کے کام کو انجام دے رہے ہیں، اتنے بڑے پیمانے پر رفاہی وفلاحی کاموں کے ساتھ مولانا کی تصنیفی وتالیفی مصروفیت مسلسل جاری وساری ہے ، یہ اللہ کی توفیق ہوتی ہے ، جس کو چاہتے ہیں مرحمت کرتے ہیں ۔

مولانا غیاث رشادی ایک ہم جہت ، یگانہ روز گار اور قابل تقلید ونمونہ شخصیت ہیں، ہزار قسم کی مصروفیات ان کی پچھلی مصروفیات کے لئے رکاوٹ نہیں بنی، ایک فرد نہیں ایک امت کا درجہ رکھتے ہیں،جن کو اللہ عزوجل نے امت کیلئے کا ایک درد مند دل، بے کسوں معذوروں کا مسیحا بنایاہے ، یہ دل ہر دم امت کے لئے دھڑکتا ہے ، اللہ نظر بد سے محفوظ فرمائے ، کسی عربی شاعر نے کہا:

لیس علی اللہ بمستحیل

ان یجمع العالم فی واحد

اللہ کے لئے یہ مشکل نہیں کہ

کہ سارے عالم کو ایک شخص میں جمع فرمادیں

Thursday 8 August 2019

عيد الاضحي كا سبق، مفتي رفيع الدين حنيف قاسمي



عید الاضحی کا سبقمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
یہ اللہ عزوجل کا نہایت احسان وفضل وکرم کہ اللہ عزوجل نے ہمارے لئے خوشی ومسرت اور شادمانی کے دو مواقع نصیب فرمائے، ایک رمضان المبارک کے روزوں کے اختتام پر ’’عید الفطر‘‘ کی خوشی اور مسرت کا موقع ہے اور دوسرا موقع اور لمحہ عید الأضحی کا موقع ہے، ہم عید ومسرت وشادمانی کے ان لمحات کو یوں ہی سرسری انداز میں نہ گذار دیں ؛ بلکہ ان خوشی کے مواقع اور لمحات کو عبرت وموعظت کا ذریعہ بنائیں۔
عید کے لمحات اور شادمانیاں اور خوشیوں کی یہ سوغات ہر سال ہم پر آتے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ اس سے کسی بھی طرح درس وعبرت نہیں لیتے اور اس سے اپنی زندگی کو سجانے اور سنوارنے اور اس سے عبرت موعظت حاصل کرنے کی تگ ودو نہیں کرتے، خصوصا عید الاضحی کے اس موقع سے ہم میں دین وعقیدہ کے حوالے سے قربانی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے، در اصل غیر مسلم اقوام یہود ونصاری دیگر امتوں کی تقلید اور نقالی میں ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ جس طرح عید کے مواقع کو عیش کوشی اور تفریح نفس کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، اس کو انہوں نے عبرت وموعظت اور رجوع الی اللہ اور جذبہ واحساسات کی قربانی کا ذریعہ نہیں بنایا، عید کے یہ مواقع ان پر کوئی اثر نہیں چھوڑتے، ان کی اندر اس سے کوئی تبدیلی اور تغیر پیدا نہیں ہوتا، نہ وہ گمراہی اور بے راہ روی سے باز آتے ہیں اور نہ ان کے اندر خیر وخوبی کاکوئی جذبہ پیدا ہوتا ہے،  اسی طرح ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم نے بھی عید کے مواقع کو محض تفریح نفس اور تسلی قلب کا سامان بنایا ہوا ہے، اگر ہم عیدین کے ان مواقع اور خوشی ومسرت کی ان گھڑیوں کو صحیح روحانیت اور واقعی حقیقت کے ساتھ منائیں تو عید کے یہ مواقع ہمارے لئے ہماری زندگی میں تبدیلی اور تغییر کا سامان بنیں گے، ہمارے ساری زندگی سدھر اور سنور جائے گی، اور ہمارے سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، ہمارے سارے اطور وعادات درست ہوجائیں گے۔
عید الاضحی کے موقع سے کتنے مسلمان ہیں جو محض اخلاص وللہیت، رضاء خداوندی اور صرف اورصر ف خوشنودی رب سے قربانی دیتے ہیں، ، قربانی کے اس  موقع سے ہمارے اندر یہ جذبہ کار فرما ہو کہ دین اور عقیدہ کے مطالبہ اور ضرورت پر وہ خود اپناخون بہائے گا، اپنی ذات کی قربانی تک دے گا۔
اگر مسلمانوں میں واقعی یہ جذبہ کار فرما ہوجائے تو وہ ایک نہایت طاقتور مسلمان بن سکتاہے، جو چیلنجوں سے نہیں خوف نہیں کھاتا، دشمن اس کو ہلانہیں سکتا، منافقین اس کے درپے نہیں ہوسکتے، نہ جادہ حق سے انحراف کرسکتا ہے،، اپنے موقف کا سودا نہیں کرسکتا، اپنے اصول سے سرمو انحراف نہیں کرسکتا، خواہ اسے اس راہ میں کسی طرح کی مشقتیں درپیش ہوں، اسے خواہ کسی قدر سختی اور تکلیف کو جھیلنا پڑے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث شریف میں مروی ہے کہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اللہ عز وجل کے یہاں خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، یہ قربانی کا جانور روز قیامت اپنے سنگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور یہ خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ عزوجل کے یہاں مقبول ہوجاتا ہے، اس لئے قربانی خوش دلی سے دیا کرو ( ابن ماجہ، حدیث: 1326)
اس حدیث سے پتہ چلا کہ اللہ عزوجل کے یہاں قربانی کا یہ عمل اسی وقت قبولیت حاصل کرسکتا ہے، جب کہ اس میں اخلاص وللہیت کافرما ہو، اس میں ریاکاری، شہرت عرف وعادت کا دخل نہ ہو۔
اس لئے جب کوئی مسلمان نہایت اخلاص وللیہت اور ایمان کے جذبہ کے ساتھ دیتا ہے تو گویا اس نے اپنے آپ کو منہاج اسلام اور شریعت کے رنگ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر ڈھال لیا، اس نے اپنے آپ سے گویا یہ معاہدہ کرلیا کہ وہ دین حنیف کے مطالبہ پر ہر طرح قیمت چکانے کے لئے تیارہے۔
عید الاضحی کی قربانی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مومن نے اپنے ارادوں کو پس پشت ڈال دیا ہے، دین اور عقیدہ واسلام کی چاہ کو اپنی چاہ پر مقدم کرلیاہے، اب وہ زندگی کے ہر شعبہ میں شریعت کی روشنی کے مطابق چلے گا، اس کا ہر فعل دین کے مطابقہ ہوگا، اور شریعت سے ہٹ کرکوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔
قوی وطاقتور، جسم وجثہ کے حامل بکریوں، اعلی وقیمتی دنبوں، نہایت حسین وخوبصورت جانوروں کی قربانی دے کر بھی گمراہی پر چلتا ہے، خواہشات کی ڈگر کو اختیار کرتا ہے، شہوات ولذات میں پڑا رہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی قربانی اللہ کے یہاں مقبول ومنظور نہیں ہوئی، اور توقع اور امید کے مطابق وہ بارگاہِ ایزدی میں شرف حاصل نہ کرسکی، اور اس کو اس قربانی کے ذریعے رضا وتسلیم کا وہ پروانہ من جانب اللہ نہیں مل سکتا جو ایک مومن کی دنیا وآخرت کا سرمایہ ہے۔
  قربانی کے ذریعے اللہ عزوجل مومن کے دل میں موجود تقوی اور اللہ کے ڈر اور خوف کا اندازہ کرنا چاہتے، جس تقوی کے وصف نے اس کو اپنے جانور کی قربانی پر آمادہ کیا ہواہے، چونکہ یہی تقوی کا وصف و ہ ہے جو اس کو آمادہ خیر کرتا ہے اور شرسے روکتا ہے،  اور اللہ کی رضا جوئی پر کو ابھارتا ہے، تقوی کا یہ وصف جس عمل میں بھی شامل ہوجاتا ہے تو اسے سونے اور چاندی کے مثل صیقل کردیتا ہے۔
 جب یہ تقوی ہی مومن کے لئے قربانی کے عمل پرآمادہ کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے مومن کی نشأۃ جدیدہ ہوجاتی ہے، اب وہ اپنا ہر عمل دین کے تقاضے، عقیدے مطالبے کے موافق کریگا، وہ صرف اللہ کا خوف کرے گا، وہ صرف دینی غیر ت اور حمیت سے پر ہوگااور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق خاطر مضبوط کرے گا اور اس کے اندر یہ بھروسہ پیدا کرے گا کہ ساری دنیا مل کر اگراس کو نفع پہنچانا چاہے تو اس کو نفع نہیں پہنچاسکتی، لیکن جو مقدر میں ہے، اور اگر ساری دنیا مل کر اسے کچھ نقصان پہنچانا جاہے تو اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے سوائے اس کے جو اللہ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہے۔
جس مومن کا تعلق مع اللہ مضبوط ہوتا ہے، اس کی نصر ت وتائید پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ دنیا خطرناک جنگلات سے نہ خوف کرتا ہے، نہ روئے زمین کے خطرناک صحراء اس میں خوف واندیشہ پیدا کرسکتے ہیں، وہ مصائب کے وقت تزلزل کا شکار نہیں ہوتا، آزمائش اور مصیبتوں میں وہ کمزور نہیں پڑتا، خوشی اسے مغرور ومتکبر نہیں بناتی، مادی ذرائع ووسائل اور خوش حال اور فارغ البال زندگی کا وہ متمنی نہیں ہوتا؛ کیوں کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ کے یہاں مقبول بندہ بنالیا ہے۔
اگر آج ہم عالمی اور ملکی سطح پر ہماری حالت پر نظر ڈالی تو پتہ چلے گا کہ ہم مسلمانوں نے عید الاضحی کے موقع سے مطلوبہ سبق حاصل نہیں کیا، ہم نے اس موقع کو اللہ عزوجل کے ساتھ تعلق استوار کرنے اور دین کے ساتھ اپنے رابطہ کو مضبوط کرنے اور زندگی کی ڈگر کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی، اس طرح کے مواقع سرسری انداز میں آجاتے جاتے ہیں، ہمارے زندگی پر اس کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہوتے، غافل شخص متحرک نہیں ہوتا،سویا ہوا جاگ نہیں جاتا۔
 قربانی اور عید کے ان مواقع کے مسلسل آمد باجود ہم ضعیف اور کمزور ہیں، ہم ان مواقع دوبارہ لوٹ کر آنے پر ذلیل خوار ہیں، ہم کمزوری کو قوت اورذلت کو عزت بدلنے کی کوشش اورجدوجہد نہیں کرتے۔
 اس سال ہم عید الاضحی اس حال میں منارہے کہ ہیں مسلمان ذلت وپستی اور نکبت وادبار کی حالت میں ہے، سارے دشمن ہمارے خلاف یکجا ہیں، ہمیں آسان تر لقمہ بناچاہتے، ہمارے دین پر الزام تراشی کر رہے ہیں، ہمارے درون خانہ بھی حملہ آور ہیں، ہمارے بھائیوں کو آپس میں منصوبہ بند شکل میں دست گریباں کر  کے ہمار ی ہنسی اڑا رہے ہیں، ہمیں الزام دیا جارہا ہے، ہر طرح وسائل ابلاغ کا استعمال کرکے ہمارے دین دہشت گری کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے، وسائل وذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ باور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلامی تعلیم کے نتیجے میں ’’دہشت گرد‘‘ پیدا ہوتے ہیں، اسلامی ممالک کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اسلامی نہج تعلیم کو مغربی کمیونزم تعلیم کا چربہ بنادیں، جس کی وجہ سے معتدل علماء، معتدل دیندار، معتدل مفکرین پیدا ہوسکیں، مختصر یہ کہ اعتدال پسند مسلمان اس تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہوں، ورنہ تو اس ملک کو دہشت گرد ملک میں شمار کیا جائے گا، مغرب ومشرق میں کوئی نہایت مسلح اور منصوبہ بند انداز میں دنیا کے سوپر پاور کی قیادت میں تباہی وبربادی اور اجتماعی قتل کی مہم چلائی جارہی ہے۔
 ان حالات کامقابلہ صرف اور صرف قوت ایمانی، ایثار وقربانی کے جذبہ سے کیا جاسکتا ہے، جس سے پتہ چلے گا کہ مومن کی زندگی پھولوں کا سیج نہیں، بلکہ کانٹوں کا مجموعہ ہے، مصائب صابر وشاکر، کاذب اور منافق مابین کے فصل کرتے ہیں۔
 اللہ عزوجل کا ارشاد گرمی ہے :

’’ الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْن‘‘

(الم، کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی، حالانکہ ہم نے ان سب کی آزمائش کی ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ لہذا اللہ ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سچائی سے کام لیا ہے اور وہ یہ بھی معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔ )   ( العنکبوت 1=3)
اور ایک جگہ ارشاد گرامی ہے:

’’وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَکُمْ ‘‘ (محمد:31)

(اور بلا شبہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں یہاں تک کہ ہم جان لیں تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو اور ہم جانچ لیں تمہارے حالات۔ )
اور ایک جگہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں، :

’’لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُور‘‘  (آل عمران: 186)

(مسلمانو!تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں )
ابتلاء اور آزمائش کے مواقع میں صبر اور تقوی کو اختیار کرنے میں جو اللہ عزوجل نے حکمت رکھی ہے، اس سے خبیب اورطیب لوگ علاحدہ ہوجاتے، اپنے ایمان میں سچا اور جھوٹے مدعیان ایمان کے مابین فرق واضح ہوجاتا ہے، صبر اور تقوی یہ ثبات واستقامت کے اصل الاصول، ہیں یہ دونوں مومن کا ایسا سرمایہ ہیں جو کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوتے، جو شخص صبر اور تقوی کو اختیار کرتا ہے، وہ عزیمت پر عمل پیرا ہے، صبر وتقوی کو اختیار کرنے والے سے زندگی کے کسی بھی موقع سے ناکامی حاصل نہیں ہوسکی، وہ کبھی بھی قنوطیت اور اامیدی کا شکار نہیں ہوسکتا۔
دینی مواقع، اسلامی عیدیں بلکہ اسلام کے فرض کردہ تمام عبادات، خصوصی قربانی جسے مسلمان دس ذی الحجہ کو حضرت ابراہیم کی سنت کے طور پر انجام دیتا ہے، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم ہر قسم کی قربانی دیں سکیں، نفس کی، مال اور مختلف قسم مصائب اور مشکلات کا تحمل کریں، جسمانی، جانی، روحانی، عقلی، جذبات وخیالات قید وبند، جلاوطنی، اہل ووطن سے مفارقت ہر طرح کی قربانی کے دینے پر آمادہ ہوجائیں۔

Tuesday 6 August 2019

عيد الاضحي كا سبق، مفتي رفيع الدين حنيف قاسمي eid ul azha ka sabaq

عید الاضحی کا سبق

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

یہ اللہ عزوجل کا نہایت احسان وفضل وکرم کہ اللہ عزوجل نے ہمارے لئے خوشی ومسرت اور شادمانی کے دو مواقع نصیب فرمائے، ایک رمضان المبارک کے روزوں کے اختتام پر ’’عید الفطر‘‘ کی خوشی اور مسرت کا موقع ہے اور دوسرا موقع اور لمحہ عید الأضحی کا موقع ہے، ہم عید ومسرت وشادمانی کے ان لمحات کو یوں ہی سرسری انداز میں نہ گذار دیں ؛ بلکہ ان خوشی کے مواقع اور لمحات کو عبرت وموعظت کا ذریعہ بنائیں۔
عید کے لمحات اور شادمانیاں اور خوشیوں کی یہ سوغات ہر سال ہم پر آتے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ اس سے کسی بھی طرح درس وعبرت نہیں لیتے اور اس سے اپنی زندگی کو سجانے اور سنوارنے اور اس سے عبرت موعظت حاصل کرنے کی تگ ودو نہیں کرتے، خصوصا عید الاضحی کے اس موقع سے ہم میں دین وعقیدہ کے حوالے سے قربانی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے، در اصل غیر مسلم اقوام یہود ونصاری دیگر امتوں کی تقلید اور نقالی میں ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ جس طرح عید کے مواقع کو عیش کوشی اور تفریح نفس کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، اس کو انہوں نے عبرت وموعظت اور رجوع الی اللہ اور جذبہ واحساسات کی قربانی کا ذریعہ نہیں بنایا، عید کے یہ مواقع ان پر کوئی اثر نہیں چھوڑتے، ان کی اندر اس سے کوئی تبدیلی اور تغیر پیدا نہیں ہوتا، نہ وہ گمراہی اور بے راہ روی سے باز آتے ہیں اور نہ ان کے اندر خیر وخوبی کاکوئی جذبہ پیدا ہوتا ہے،  اسی طرح ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم نے بھی عید کے مواقع کو محض تفریح نفس اور تسلی قلب کا سامان بنایا ہوا ہے، اگر ہم عیدین کے ان مواقع اور خوشی ومسرت کی ان گھڑیوں کو صحیح روحانیت اور واقعی حقیقت کے ساتھ منائیں تو عید کے یہ مواقع ہمارے لئے ہماری زندگی میں تبدیلی اور تغییر کا سامان بنیں گے، ہمارے ساری زندگی سدھر اور سنور جائے گی، اور ہمارے سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، ہمارے سارے اطور وعادات درست ہوجائیں گے۔
عید الاضحی کے موقع سے کتنے مسلمان ہیں جو محض اخلاص وللہیت، رضاء خداوندی اور صرف اورصر ف خوشنودی رب سے قربانی دیتے ہیں، ، قربانی کے اس  موقع سے ہمارے اندر یہ جذبہ کار فرما ہو کہ دین اور عقیدہ کے مطالبہ اور ضرورت پر وہ خود اپناخون بہائے گا، اپنی ذات کی قربانی تک دے گا۔
اگر مسلمانوں میں واقعی یہ جذبہ کار فرما ہوجائے تو وہ ایک نہایت طاقتور مسلمان بن سکتاہے، جو چیلنجوں سے نہیں خوف نہیں کھاتا، دشمن اس کو ہلانہیں سکتا، منافقین اس کے درپے نہیں ہوسکتے، نہ جادہ حق سے انحراف کرسکتا ہے،، اپنے موقف کا سودا نہیں کرسکتا، اپنے اصول سے سرمو انحراف نہیں کرسکتا، خواہ اسے اس راہ میں کسی طرح کی مشقتیں درپیش ہوں، اسے خواہ کسی قدر سختی اور تکلیف کو جھیلنا پڑے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث شریف میں مروی ہے کہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اللہ عز وجل کے یہاں خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، یہ قربانی کا جانور روز قیامت اپنے سنگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور یہ خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ عزوجل کے یہاں مقبول ہوجاتا ہے، اس لئے قربانی خوش دلی سے دیا کرو ( ابن ماجہ، حدیث: 1326)
اس حدیث سے پتہ چلا کہ اللہ عزوجل کے یہاں قربانی کا یہ عمل اسی وقت قبولیت حاصل کرسکتا ہے، جب کہ اس میں اخلاص وللہیت کافرما ہو، اس میں ریاکاری، شہرت عرف وعادت کا دخل نہ ہو۔
اس لئے جب کوئی مسلمان نہایت اخلاص وللیہت اور ایمان کے جذبہ کے ساتھ دیتا ہے تو گویا اس نے اپنے آپ کو منہاج اسلام اور شریعت کے رنگ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر ڈھال لیا، اس نے اپنے آپ سے گویا یہ معاہدہ کرلیا کہ وہ دین حنیف کے مطالبہ پر ہر طرح قیمت چکانے کے لئے تیارہے۔
عید الاضحی کی قربانی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مومن نے اپنے ارادوں کو پس پشت ڈال دیا ہے، دین اور عقیدہ واسلام کی چاہ کو اپنی چاہ پر مقدم کرلیاہے، اب وہ زندگی کے ہر شعبہ میں شریعت کی روشنی کے مطابق چلے گا، اس کا ہر فعل دین کے مطابقہ ہوگا، اور شریعت سے ہٹ کرکوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔
قوی وطاقتور، جسم وجثہ کے حامل بکریوں، اعلی وقیمتی دنبوں، نہایت حسین وخوبصورت جانوروں کی قربانی دے کر بھی گمراہی پر چلتا ہے، خواہشات کی ڈگر کو اختیار کرتا ہے، شہوات ولذات میں پڑا رہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی قربانی اللہ کے یہاں مقبول ومنظور نہیں ہوئی، اور توقع اور امید کے مطابق وہ بارگاہِ ایزدی میں شرف حاصل نہ کرسکی، اور اس کو اس قربانی کے ذریعے رضا وتسلیم کا وہ پروانہ من جانب اللہ نہیں مل سکتا جو ایک مومن کی دنیا وآخرت کا سرمایہ ہے۔
  قربانی کے ذریعے اللہ عزوجل مومن کے دل میں موجود تقوی اور اللہ کے ڈر اور خوف کا اندازہ کرنا چاہتے، جس تقوی کے وصف نے اس کو اپنے جانور کی قربانی پر آمادہ کیا ہواہے، چونکہ یہی تقوی کا وصف و ہ ہے جو اس کو آمادہ خیر کرتا ہے اور شرسے روکتا ہے،  اور اللہ کی رضا جوئی پر کو ابھارتا ہے، تقوی کا یہ وصف جس عمل میں بھی شامل ہوجاتا ہے تو اسے سونے اور چاندی کے مثل صیقل کردیتا ہے۔
 جب یہ تقوی ہی مومن کے لئے قربانی کے عمل پرآمادہ کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے مومن کی نشأۃ جدیدہ ہوجاتی ہے، اب وہ اپنا ہر عمل دین کے تقاضے، عقیدے مطالبے کے موافق کریگا، وہ صرف اللہ کا خوف کرے گا، وہ صرف دینی غیر ت اور حمیت سے پر ہوگااور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق خاطر مضبوط کرے گا اور اس کے اندر یہ بھروسہ پیدا کرے گا کہ ساری دنیا مل کر اگراس کو نفع پہنچانا چاہے تو اس کو نفع نہیں پہنچاسکتی، لیکن جو مقدر میں ہے، اور اگر ساری دنیا مل کر اسے کچھ نقصان پہنچانا جاہے تو اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے سوائے اس کے جو اللہ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہے۔
جس مومن کا تعلق مع اللہ مضبوط ہوتا ہے، اس کی نصر ت وتائید پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ دنیا خطرناک جنگلات سے نہ خوف کرتا ہے، نہ روئے زمین کے خطرناک صحراء اس میں خوف واندیشہ پیدا کرسکتے ہیں، وہ مصائب کے وقت تزلزل کا شکار نہیں ہوتا، آزمائش اور مصیبتوں میں وہ کمزور نہیں پڑتا، خوشی اسے مغرور ومتکبر نہیں بناتی، مادی ذرائع ووسائل اور خوش حال اور فارغ البال زندگی کا وہ متمنی نہیں ہوتا؛ کیوں کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ کے یہاں مقبول بندہ بنالیا ہے۔
اگر آج ہم عالمی اور ملکی سطح پر ہماری حالت پر نظر ڈالی تو پتہ چلے گا کہ ہم مسلمانوں نے عید الاضحی کے موقع سے مطلوبہ سبق حاصل نہیں کیا، ہم نے اس موقع کو اللہ عزوجل کے ساتھ تعلق استوار کرنے اور دین کے ساتھ اپنے رابطہ کو مضبوط کرنے اور زندگی کی ڈگر کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی، اس طرح کے مواقع سرسری انداز میں آجاتے جاتے ہیں، ہمارے زندگی پر اس کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہوتے، غافل شخص متحرک نہیں ہوتا،سویا ہوا جاگ نہیں جاتا۔
 قربانی اور عید کے ان مواقع کے مسلسل آمد باجود ہم ضعیف اور کمزور ہیں، ہم ان مواقع دوبارہ لوٹ کر آنے پر ذلیل خوار ہیں، ہم کمزوری کو قوت اورذلت کو عزت بدلنے کی کوشش اورجدوجہد نہیں کرتے۔
 اس سال ہم عید الاضحی اس حال میں منارہے کہ ہیں مسلمان ذلت وپستی اور نکبت وادبار کی حالت میں ہے، سارے دشمن ہمارے خلاف یکجا ہیں، ہمیں آسان تر لقمہ بناچاہتے، ہمارے دین پر الزام تراشی کر رہے ہیں، ہمارے درون خانہ بھی حملہ آور ہیں، ہمارے بھائیوں کو آپس میں منصوبہ بند شکل میں دست گریباں کر  کے ہمار ی ہنسی اڑا رہے ہیں، ہمیں الزام دیا جارہا ہے، ہر طرح وسائل ابلاغ کا استعمال کرکے ہمارے دین دہشت گری کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے، وسائل وذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ باور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلامی تعلیم کے نتیجے میں ’’دہشت گرد‘‘ پیدا ہوتے ہیں، اسلامی ممالک کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اسلامی نہج تعلیم کو مغربی کمیونزم تعلیم کا چربہ بنادیں، جس کی وجہ سے معتدل علماء، معتدل دیندار، معتدل مفکرین پیدا ہوسکیں، مختصر یہ کہ اعتدال پسند مسلمان اس تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہوں، ورنہ تو اس ملک کو دہشت گرد ملک میں شمار کیا جائے گا، مغرب ومشرق میں کوئی نہایت مسلح اور منصوبہ بند انداز میں دنیا کے سوپر پاور کی قیادت میں تباہی وبربادی اور اجتماعی قتل کی مہم چلائی جارہی ہے۔
 ان حالات کامقابلہ صرف اور صرف قوت ایمانی، ایثار وقربانی کے جذبہ سے کیا جاسکتا ہے، جس سے پتہ چلے گا کہ مومن کی زندگی پھولوں کا سیج نہیں، بلکہ کانٹوں کا مجموعہ ہے، مصائب صابر وشاکر، کاذب اور منافق مابین کے فصل کرتے ہیں۔
 اللہ عزوجل کا ارشاد گرمی ہے :

’’ الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْن‘‘

(الم، کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی، حالانکہ ہم نے ان سب کی آزمائش کی ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ لہذا اللہ ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سچائی سے کام لیا ہے اور وہ یہ بھی معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔ )   ( العنکبوت 1=3)
اور ایک جگہ ارشاد گرامی ہے:

’’وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَکُمْ ‘‘ (محمد:31)

(اور بلا شبہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں یہاں تک کہ ہم جان لیں تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو اور ہم جانچ لیں تمہارے حالات۔ )
اور ایک جگہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں، :

’’لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُور‘‘  (آل عمران: 186)

(مسلمانو!تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں )
ابتلاء اور آزمائش کے مواقع میں صبر اور تقوی کو اختیار کرنے میں جو اللہ عزوجل نے حکمت رکھی ہے، اس سے خبیب اورطیب لوگ علاحدہ ہوجاتے، اپنے ایمان میں سچا اور جھوٹے مدعیان ایمان کے مابین فرق واضح ہوجاتا ہے، صبر اور تقوی یہ ثبات واستقامت کے اصل الاصول، ہیں یہ دونوں مومن کا ایسا سرمایہ ہیں جو کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوتے، جو شخص صبر اور تقوی کو اختیار کرتا ہے، وہ عزیمت پر عمل پیرا ہے، صبر وتقوی کو اختیار کرنے والے سے زندگی کے کسی بھی موقع سے ناکامی حاصل نہیں ہوسکی، وہ کبھی بھی قنوطیت اور اامیدی کا شکار نہیں ہوسکتا۔
دینی مواقع، اسلامی عیدیں بلکہ اسلام کے فرض کردہ تمام عبادات، خصوصی قربانی جسے مسلمان دس ذی الحجہ کو حضرت ابراہیم کی سنت کے طور پر انجام دیتا ہے، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم ہر قسم کی قربانی دیں سکیں، نفس کی، مال اور مختلف قسم مصائب اور مشکلات کا تحمل کریں، جسمانی، جانی، روحانی، عقلی، جذبات وخیالات قید وبند، جلاوطنی، اہل ووطن سے مفارقت ہر طرح کی قربانی کے دینے پر آمادہ ہوجائیں۔




Sunday 4 August 2019

جہیز:معاشرےکےلیےایک ناسور، رفيع الدين حنيف قاسمي jahiz: muashre ke lie eik nasur , Mufti Rafiuddin hanee qasmi


جہیز:معاشرےکےلیےایک ناسور
 مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی :  جہیز کا لین دین یہ سماج کا ایک ناسور ہے، یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہے ماں باپ اپنی لاڈلی اور پیاری بیٹی کو پال پوس کر، تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کر کے، عمرکے ایک مرحلے تک اس کی ہر طرح سے نگہداشت اور حفاظت کر کے ایک مرد کے بالکلیہ حوالہ کردیں، ساتھ ہی یہ ماں باپ ہی کی ذمہ داری ہے کہ جہیز کی شکل میں اس کی زندگی کا سارا سامان بھی کریں، کچھ کمی کوتاہی رہ جائے تو ساری زندگی خود اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کو سسرال والوں کی طعن وتشنیع اور ان کی اذیتوں کا نشانہ بنائے، یہی کیا بس تھا کہ اپنی حور جیسے بیٹی کو ماں باپ نے پال پوس کر، تعلیم واخلاق سے آراستہ کرکے مرد کے حوالہ کردیا، جہیز کی مانگ یہ مرد کی مردانگی وفرزانگی کے خلاف ہے، کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جس وقت ہم جہیز مانگ رہے ہیں توشادی کے بعد ہمیں بھی اولادیں ہونگی، دو یا تین لڑکیاں ہوں گی تو ان کے جہیز کا نظم کہاں کریں گے؟جہیز کے ڈیمانڈاور مانگ کی رسم کی وجہ سے ہر چوتھے گھنٹے کوئی نہ کوئی معصوم عورت اپنی جان گنوا بیٹھتی ہے، اعداد وشمار کے مطابق ہر سال جہیز کی رسم کے نتیجے میں کچھ ان بیاہی اور کچھ بیاہی لڑکیاں ملا کر ہر سال 10000لڑکیاں موت کی شکار ہوتی ہیں، ہر سال جہیز کی مانگ اور ڈیمانڈ کے نتیجے میں مرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے، جہیز کے مانگ کا یہ رواج ملک کے ہر گوشہ میں ہے، ہر جگہ جہیز کی مانگ کے نتیجے میں خواتین کو اس خود کشی پر مجبور ہونا پڑتاہے۔
 ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہمارے سماج اور معاشرے میں پیش آتے ہیں، کتنی معصوم خواتین جو شادی کے کچھ سالوں کے بعد ہی شوہروں اور سرال والوں کی ہراسانی کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہوں گے، یہ کس طرح کے مالد ار لوگ ہیں جو جہیز کے نام پر 10، 10لاکھ کی بھیک جوڑے کے نام پر مانگتے ہیں، یہ تو بھکاری ہیں، یہ تو کاروباری اور دھوکہ باز اور دغاز ہیں، ان کو شوہر جیسا مقام زیب نہیں دیتا، آج جس قدر پیسہ والا آدمی ہوتا ہے، جس قدر بڑا ڈاکٹر اور بزمین مین ہوتا ہے اس کا جہیز اور جوڑے کے رقم کا مطالبہ بھی اس کی شایانِ شان ہوتا ہے، انہیں مالدار یا بزمین یا بڑا ڈاکٹر کیسے کہیں ؟ یہ تو دلال ہیں، یہ عورت کی عزت وعصمت اورنسوانیت اور معصومیت کاخون چوسنے والے ہیں، یہ توانسانیت قصاب ہیں، یہ عورت کی فطری کمزوری اور نسوانیت کا استحصال کرنے والے چور اچکے ہیں۔
جہیز کی مانگ اور مطالبے آج سماج اور معاشرے کو نہایت حیران اور پریشان کیا ہواہے، آج لڑکی کی پیدائش پرناک بھاں جوچڑھائے جاتے ہیں، اس کے پس پردہ بھی جہیز کی یہ ظالمانہ مانگ کارفرما ہے، لڑکی کی پیدائش سے ہی ماں باپ کو ایک خطیر رقم جہیز اورجوڑے کے نام پر پس انداز کرکے رکھنا پڑتا ہے، کیوں جہیز میں سارے سازوسامان کے ساتھ بہت ساری جگہ ٹی وی، واشنگ مشین، فریج، کلر، بلکہ اب تو گاڑی اورکاریں دینے کا بھی رواج ہوگیا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سارا انتظام مرد حضرات خود کیوں نہیں کرلیتے، یہ سارا مطالبہ ناتواں لڑکی اور اس کے ماں باپ پر لاد دیا جاتا ہے تو عقل سے بالکل ماورا چیز نظر آتی ہے، اس جہیز کی مانگ نے سماج پر بہت ظلم ڈھائے ہیں، شادی سے قبل غریب ماں باپ کی جہیز کی پونچی جمع کرنے کے خاطر رات ودن کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، بسااوقات ماں باپ کو قرض کے بوجھ تلے دب جانا پڑتاہے، یا لڑکیوں کی عمریں اسی جہیز کے ساز وسامان کے انتظام کے انتظار میں گذرجاتی ہیں، یہ ظالم معاشرہ اس قدر درندہ صفت واقع ہوا ہے جہیز کی مانگ کے پورا کرنے کے باوجود بھی لڑکی اور اس کے ماں باپ کو ہراساں کرنا ترک نہیں کرتا؛ بلکہ اس کے بعد بھی سسرال کے ٹکڑوں پر پلنے کی ہوس ختم نہیں ہوتی، یہ جہیز اس قدر خطرناک وبا بن چکی ہے کہ اسکے سامنے خوبصورتی، خاندان، اخلاق اور تعلیم بھی ماند پڑجاتے ہیں، بہت سارے پڑھے لکھے لوگ جو جہیز کو برا گردانتے ہیں، لیکن خود جب اپنی یا اپنے لڑکوں کی شادی کا موقع ہوتاہے تو پھر اس جہیز اور سازوسامان اور روپیوں اور پیسوں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا مردانہ حق سمجھتے ہیں اور زیادہ زیادہ دام پر اپنی بولی لگاتے ہیں، اپنے آپ کو وہاں فروخت کرتے ہیں جہاں ان کو جہیز اور جوڑے کے نام پر زیادہ دام ملیں۔
خطرناک صورتحال یہ ھے جہیز ہراسانی، لڑکیوں کو خود کشی پر مجبور کرنا اور ان کو جہیز کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنا یہ نبی کے نام لیوا مسلمان کرتے ہیں، جس نے کبھی کسی غلام اور عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور عورت کے حقوق بیان کئے وہ مسلمان عورتوں کو اذیت دیتے ہیں، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ خطبا، علما، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس وبا کے قبیح پہلوں کو خوب بیان کیاجائے اور معاشرے میں شعور بیدار کیا جائے کہ جس لڑکی کو وہ اس طرح ہراساں کررہے ہیں اگر خود ان کی لڑکی کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آئے تو وہ کس طرح تلملا کر رہ جائیں، جہیز جو کہ قانونی طور پر بھی منع ہے اور شرعی طور پر بھی، ان دونوں پہلوں سے اس کی قباحت اور برائی کو خوب بیان کیاجائے ؛ بلکہ تنظیموں اور جماعتوں اور خصوصا نوجوان کی ایسی تنظیمیں تشکیل دی جائیں جو محلہ واری سطح پر اس وبا میں ملوث اور جہیز کا لین دین کرنے والے اور شادیوں میں بے جااسراف کرنے والوں کاتعاقب کریں اور ان کی گرفت کریں اور ان کو اس طرح کرنے باز رکھیں اور ان کاسماجی اور سوشل بائیکاٹ کریں، جہیز کی وبا نے شادی کو مشکل تر بنادیا ہے، اسلام نے شادی کو اس قدر سادہ کرنے کرنے کے لئے کہا ہے کہ زنا مشکل ہوجائے، اب ہم نے مختلف رسموں رواجوں او رخصوصا جہیز اور جوڑے کی مانگ سے شادی کواس قدر مشکل کردیا ہے کہ زنا اوربرائی آسان ہوگئی اور شادی مشکل ہوگئی۔
جوڑے اور جہیز کو فقہا نے شرعا رشوت قراردیا ہے، کتب فقہ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے قدیم زمانہ میں بھی اور آج کل بھی عالمِ عربی میں صورت یہ رائج ہے کہ لڑکی والے لڑکے والوں سے خطیر رقم یا دیگر اشیا کا مطالبہ کرتے ہیں، شرعی نقطہ نظر سے یہ مطالبہ رشوت ہے اور ا س کے لئے ذریعہ اور واسطہ بننا بھی حرام ہے (الرد المحتار)اس صورت میں بھی ممنوع ہے جب کہ صریح اور واضح الفاظ میں تو مطالبہ نہ ہو ؛ لیکن غالب گمان یہ ہے کہ جہیز یا نقد رقم اگر ادا نہیں کی گئی تو یہ رشتہ منظور نہ ہوگا یا اگر بادل ناخواستہ رشتے طئے بھی ہوجائے تو بد سلوکی، حق تلفی، طعن وتشنیع اور ایذا رسانی کا خدشہ ہو، فقہا کرام نے اس صورت کی بڑی شد ومد سے حرمت بیان کی ہے، آج کل ہندوستان اور پورے بر صغیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں فرماتے ہیں، جب لڑکی والوں کے مطالبہ پر لڑکے کی طرف سے دی جانے والی رقم رشوت اور ناجائز ہے تو پھر لڑکے اور اس کے اہلِ خانہ کی جانب سے صراحت، کنای، دلال یا عرف ورواج کے طور پر جہیز اور نقدی کا مطالبہ بدرجہ اولی رشوت ہے جو حرام ہے اور اس کو لوٹانا واجب ہے(مسون نکاح: 109)
ہمارے یہاں بر صغیر اور عرب میں جہیز کا رواج ضرور ہے ؛ لیکن وہاں مرد کو سارے سازوسامان کرنے پڑتے ہیں، حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ذکر وفکر میں اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کیا ہے بطور عبرت کے پیش خدمت ہے :
” چند سال پہلے شام کے ایک بزرگ شیخ عبد الفتاح ہمارے یہاں تشریف لائے تھے، اتفاق سے ایک مقامی دوست بھی اس وقت آگئے، اور جب انہوں نے ایک عرب بزرگ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میری دو بیٹیاں شادی کے لائق ہیں دعا کیجئے کہ اللہ تعالی ان کی شادی کیاسباب پیدا فرمادے، شیخ نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے لئے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ رشتہ تو دونوں کا ہوچکا ہے ؛ لیکن میرے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ ان کی شادی کرسکوں، شیخ نے یہ سن کر انتہائی حیرت سے پوچھا : وہ آپ کی لڑکیاں ہیں یا لڑکے ؟ کہنے لگے : لڑکیاں ہیں، شیخ نے سراپا تعجب بن کر کہا لڑکیوں کی شادی کے لئے مالی وسائل کی ضرورت ہے ؟ انہوں نے کہا: کہ میرے پاس انہیں جہیز دینے کے لئے کچھ نہیں ہے، شیخ نے پوچھا : جہیز کیا ہوتا ہے ؟ اس پر حاضرینِ مجلس نے انہیں بتایا کہ ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ باپ شادی کے وقت اپنی بیٹی کو زیورات، کپڑے، گھر کا اثاثہ اور بہت ساز وسامان دیتا ہے  اسے جہیز کہتے ہیں، اور جہیز دینا باپ کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، جس کے بغیر لڑکی کی شادی کا تصور نہیں، اور لڑکی کی سسرال والے بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں، شیخ نے یہ تفصیل سنی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے : کیا بیٹی کی شادی کرنا جرم ہے، جس کی یہ سزا باپ کو دی جائے ؟ پھر انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک اس قسم کی رسم نہیں ہے، اکثرجگہوں پر تو یہ لڑکے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اکثر جگہوں پر تو یہ لڑکے کے ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ اپنے گھر میں دلہن کو لانے سے پہلے گھر کا اثاثہ اور دلہن کی ضروریات فراہم کر کے رکھے، لڑکی کے باپ کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتااور بعض جگہوں پر رواج یہ ہے کہ لڑکی کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے سامان تو باپ ہی خریدتا ہے، لیکن اس قیمت لڑکا ادا کرتا ہے، البتہ باپ اپنی بیٹی کو رخصت کے وقت کوئی مختصر تحفہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، لیکن وہ بھی کچھ ایسا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ ( ذکر وفکر: 283۔ )
بہرحال اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جہیز کی وبا پر بند لگایا جائے، جہیز کی قانونی وشرعی حیثیت کو بتلا کر اس وبا کو ختم کیاجائے، اس تعلق سے الیکڑک اور پرنٹ میڈیا کا سہارا لے کر اس کی برائی بیان کیاجائے، اس طرح اس ناسور اور وبا پر بند لگایا جاسکتا ہے۔

Saturday 3 August 2019

قرباني ايك عظيم عبادت : مفتي رفيع الدين حنيف قاسمي qurbani : eik azeem ebadat, by mufti rafiuddin haneef qasmi



قربانی: ایک عظیم عبادت

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
رفيق تصنيف دار الدعوة والارشاد، يوسف غوره ، حيدرآباد  
اسلام کی دو اہم عیدوں میں سے ایک عید ’’عید قرباں ‘‘ ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو ساری عالم میں منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’’عید الأضحی‘‘اور اردو ’’عید قرباں ‘‘ کہتے ہیں، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بیٹے کی قربانی کی عظیم یادگار ہے، جسے اللہ عزوجل نے رہتی تک بطور عبادت اور شعار اسلام کے زندہ اور تابندہ کر دیا، اس قربانی کا مقصود صرف جانور کی قربانی نہیں ہے ؛ بلکہ اس کا مقصود اور مطمحِ نظر یہ ہے کہ بندہ کے اندر اس قربانی کے نتیجے میں اللہ کے احکام کے لئے جذبۂ فدویت پیدا ہوجائے، اللہ عزوجل کے حکم کے سامنے اپنے ہر جذبہ اور خواہش کو قربان کرنے والاوہ بن جائے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی اسی جذبۂ فدویت اور احکام خداوندی پر وارفتگی سے معمور ہے، انہوں نے ساری زندگی اعلاء کلمہ اللہ اور حق اور توحید کی آواز بلند کرنے اور احکام خداوندی کو بلاچوں وچرا اور من وعن تسلیم کرنے میں گذاردی، جس میں ان کو زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف کٹھن اور دشوار گذار نہایت روح فرسا، جاں گسل، صبر آزما امتحانات سے گذرنا پڑا، اعلائے کلمۃ اللہ کے خاطر دہگتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے اور وہ اس سے بصحیح وسالم باذن خداوندی نکل آئے، بڑی آرزؤں اور ارمانوں سے زندگی کے آخری مراحل میں، ناامید ی اور مایوسی کے ایام میں اولاد سے سرفراز کئے گئے ؛ابھی بچے کے شیرخواری اور لڑکپن ہی کا زمانہ تھا کہ حکم خدا ہوا کہ اپنے بچے کو بے آب وگیاہ ااور جنگل اور ویرانے میں چھوڑ آؤ، چنانچہ اللہ عزوجل کے حکم کے آگے سرنگوں ہوتے ہوئے اس کی بھی تعمیل کی اور ماں سمیت بچے کو مکہ کے سنگلاخ پہاڑیوں میں چھوڑآئے، جس کی برکت کے نتیجے میں مکہ جیسا مقدس شہر اور خانہ کعبہ جیسا مبارک گھر اور آب زمزم جیسا متبرک پانی وجود میں آیا، اور بچے کے ہوش سنبھالنے کے بعد بحکم خداوندی اپنے اس لخت جگر اور چہیتے کی قربانی کے لئے بھی تیار ہوئے اس کے گلے پر چھری چلائی اور امتحان کے اس مرحلہ میں بھی کامیاب وکامراں ہوئے اور بحکم خداوندی چھری نے اپنا کام نہیں کیا اور اسماعیل علیہ السلام ذبح سے بچ گئے اور یہ قربانی کا عمل اللہ عزوجل کو اس قدر پسند آیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر سے نکلنے سے لے کر اس قربانی کے عمل تک سارے مراحل کو حج جیسے عظیم رکن اسلامی میں شامل گیا، صفاومروہ کی سعی، منی وعرفات کا قیام اور رمی جمار یہ سارے اعمال اسی قربانی کے عظیم عمل کی یادگار ہیں۔
یہ قربانی نہ صرف حجاج کے لئے ضروری قرار دی گئی ؛ بلکہ تمام مسلمانانِ عالم کے لئے جو مستطیع ہیں اس قربانی کے عمل کو ان کے لئے واجب قرار دیا گیا، یہ قربانی تو صرف ایک علامت ہے، مقصود تو اس کے ذریعہ احکامِ خداوندی کے سامنے اپنے جذبات، خواہشا ت کی قربانی ہے، اسی کو اللہ عزوجل نے فرمایا : ’’ اور یاد رکھو کہ اللہ کو نہ تو ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ہی ان کے خون بلکہ اس کے یہاں تو صرف تمہاری پرہیزگاری اور اخلاص نیت کی پونجی ہی پہنچتی ہے۔ ‘‘حضرت مفتی شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں قربانی کی حقیقت اور اس کے مقصود کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:عبادات کی خاص صورتیں اصل مقصود نہیں بلکہ دل کا اخلاص و اطاعت مقصود ہے:’’ لن ینال اللہ لحومہا‘‘ میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے اللہ کے پاس اس کا گوشت اور خو ن نہیں پہنچتا نہ وہ مقصود قربانی ہے ؛بلکہ مقصود اصلی اس پر اللہ کا نام لینا اور حکم ربی کی بجا آوری دلی اخلاص کے ساتھ ہے۔ یہی حکم دوسری تمام عبادات کا ہے کہ نماز کی نشست و برخاست کرنا اور بھوکا پیاسا رہنا اصل مقصود نہیں ؛بلکہ مقصود اصلی اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل دلی اخلاص و محبت کے ساتھ ہے اگر یہ عبادات اس اخلاص و محبت سے خالی ہیں تو صرف صورت اور ڈھانچہ ہے روح غائب ہے ؛مگر عبادات کی شرعی صورت اور ڈھانچہ بھی اس لئے ضروری ہے کہ حکم ربانی کی تعمیل کیلئے اس کی طرف سے یہ صورتیں متعین فرما دی گئی ہیں۔ واللہ اعلم۔ (معارف القرآن )
اسی قربانی کی حقیقت کو حاصل کرنے کے لئے رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : جو آدمی قربانی کرے گا اس طرح سے کہ قربانی کرتے وقت اندر سے اس کا جی خوش ہورہا ہو کہ میں اللہ کے راستے میں قربانی پیش کررہا ہوں اور اپنی قربانی پر ثواب کی امید بھی رکھتا ہو ’’کانت لہ حجابا من النار ‘‘ تو یہ قربانی اس کے اور جہنم کے بیچ میں حائل ہوجائے گی، رکاوٹ بن جائے گی (الترغیب والترہیب ) نبی پاک ﷺ نے اس حدیث میں دو باتیں ارشاد فرمائیں ہیں : (۱) کوئی بھی عمل اللہ عزوجل کے سامنے جب انسان پیش کرے تو خوش دلی سے پیش کرے اور دل وزبان پر یہ ہوا کہ اے اللہ ! تیرا شکر ہے، تیرا احسان ہے، فضل وکرم ہے کہ تو نے مجھے اس عمل کی توفیق عطا فرمائی ہے (۲) ثواب کی امیدر کھے کہ اللہ عزوجل اس جانور کو اس کے اور جہنم کے درمیان رکاوٹ بنادیں گے، ایک دوسری حدیث کے میں آتا ہے کہ یہ جانور پل صراط پر اس کے لئے سواری بن جائے گا۔
قربانی کی فضیلت 
کسی بھی چیز کی فضیلت واہمیت کے ذکر سے اس چیز کی قدر وعظمت کواپنے دل میں جاگزیں کرنا مقصود ہوتا ہے، اور ہزار مشکلات کے باوجود بندہ اس کی فضیلت کے حصول کے لئے اس عمل کو حتی الوسع بجالانے کی تگ ودوکرتا ہے،اللہ کی رضا اور ثوابِ آخرت کی جستجو میں اس عمل انجام دیتا ہے،قربانی کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اس کے بے انتہا فضائل بیان کئے ہیں، چند ایک فضائل ملاحظہ ہوں:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم نحر (دس ذوالحجہ)کو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں (یعنی قربانی سے)قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں سمیت آئے گااور بے شک اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے ہاں مقام قبولیت حاصل کر لیتا ہے پس اس خوشخبری سے اپنے دلوں کو مطمئن کر لو (ترمذی )یہاں دو باتیں ملحوظ رہیں کہ اس حدیث میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی کہ روزِ قربانی اللہ عزوجل کے یہاں اس قربانی کے عمل سے کوئی عمل بیش قیمت وبیش بہا ہے ہی نہیں، اور یہ جانور روزِ قیامت سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کرنے والے کی بخش کا سامان بنے گا، البتہ دوسری بات یہ پیشِ نظر رہے یہ قربانی ریاکاری، دکھلاوایا گوشت خوری کے لئے نہ ہو محض رضاء خداوندی اور اللہ کی قربت اور اس کی عبادت صرف مقصود ہو تو یہ قربانی کا عمل صحیح معنی میں مفید دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کا سبب بن سکے گا۔ مزید قربانی کی فضیلت واہمیت کا ذکر تے ہوئے فرمایا گیا: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا تمہارے والد ابراہیم کی سنت ہیں۔ انہوں نے عرض کیا ان میں ہمیں کیا ملے گا ؟ فرمایا ہر بال کے بدلہ نیکی۔ عرض کیا اور اون میں ؟ فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ (بھی)نیکی۔ (ابن ماجہ)اس روایت میں تو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی کے بطوراجر کے ملنے کی بات کہی گئی اور ظاہر ہے جانور کے بالوں کو گننا اور شمار کرنا ممکن ہی نہیں ؛ پھر کیوں کر قربانی کے عمل کے ثواب کااندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے ؟۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ ؛ کیوں کہ اس کے خون کے پہلے قطرے کی وجہ سے تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا : یا رسول اللہ !کیا یہ فضیلت صرف ہمارے لئے یعنی اہل بیت کے واسطے مخصوص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ فضیلت ہمارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے (الترغیب والترہیب)
قربانی ایک عبادت اور شعارِ اسلام 
ہر صاحب استطاعت پر قربانی واجب ہے، قربانی ایک مستقل عبادت اور شرائع اسلام میں سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مدینہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی، حضرات صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین اور ائمہ مجتہدین واسلاف غرض پوری امت کا متوارث عمل بھی قربانی کرنے کا رہا ہے، آج تک کسی نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھا ہے اور نہ ہی صدقہ وخیرات کو اس کے قائم مقام گردانا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی )اس سے پتہ چلا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص اور مکہ معظمہ کے ساتھ ؛ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ۹؍سال قربانی کیوں فرماتے ؟اور نہ ہی قربانی کامقصد ناداروں کی مدد کرنا ہے جو صدقہ وخیرات سے پورا ہوجائے ؛ بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے، یہ عبادت اسی طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ ہوگی، نہ اس کے مطلوبہ ثمرات وفوائد حاصل ہوں گے، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں غربت وافلاس دورِ حاصر کے بنسبت زیادہ تھا، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتا تو وہ حضرات جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی رقم کو غریبوں پر تقسیم کرتے، درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے جس میں انہوں نے اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا تھااور ہونہار فرزند نے بلا چوں وچرا حکم الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا تھا، مگر اللہ تعالی نے اپنا فضل فرما کر دنبہ کو فدیہ بنایا تھا، اس یادگار پر عمل ذبح کرنے ہی سے ہوسکتا ہے، محض صدقہ وخیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔ اسی قربانی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا : ’’اور ہر امت کے واسطے ہم نے مقرر کر دی ہے قربانی کہ یاد کریں اللہ کے نام ذبح پر چوپایوں کے جو ان کو (اللہ نے دیے)سو اللہ تمہارا ایک اللہ ہے سو اسی کے حکم میں رہو، اور بشارت سنادے عاجزی کرنے والوں کو ‘‘امام ابن کثییر اور امام رازی وغیرہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں تصریح فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام ادیان ومذاہب میں چلا آرہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر : ۳؍۲۲۷، تفسیر کبیر :۳؍۳۴)اور ایک جگہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور(اسی کے نام کی ) قربانی دیجئے ‘‘(الکوثر :۲)نیز حافظ ابن کثیر وامام رازی رحمہا اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عطاء، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت محمد بن کعب قرظی، حضرت ضحاک رحمہم اللہ وغیرہ کا قول نقل کیاہے کہ مشرکین عرب غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے، اس لئے رسول اللہ کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں (تفسیر ابن کثیر :۴؍۷۳۴)اس لئے ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اور نمازِ عید کی ادائیگی کے لئے اس کو عید گاہ آنے سے بھی منع کیا ہے کہ بغیر قربانی کے عمل عید گاہ آنے کا اور خدا کے حضور دورکعت شکرانے کی نماز ادا کرنے کا مستحق ہی نہیں ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کو وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ )
لہٰذا قربانی ہر مسلمان عاقل، بالغ، مقیم پر واجب ہے، جس  کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسی کی قیمت کا مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد ہو، یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں، یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ وغیرہ (شامی، کتاب الأضحیہ )قربانی کے معاملہ میں اس مال پر سال بھر کا گذرنا بھی شرط نہیں (بدائع:۵؍۶۵،کتاب الأضحیہ ) لہٰذا بعض لوگوں کا یہ باور کرنا کہ گھر میں ایک قربانی ہوجانا کافی ہے یہ درست نہیں ہے ؛ بلکہ میاں بیوی اگر دونوں صاحبِ نصاب ہوں تو دونوں کی طرف سے دو قربانیاں لاز م ہیں، اسی طرح اگر باپ بیٹا دونوں صاحب نصاب ہوں تو خواہ اکٹھے رہتے ہوں مگر ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی واجب ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر سال دو بکروں کی قربانی کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی تھی، لہٰذا میں ایک قربانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہوں (أبوداؤد، ترمذی )اسی طرح بعض لوگوںکا یہ سمجھنا کہ قربانی عمر بھر میں ایک دفعہ کر لینا کافی ہے، یہ خیال غلط ہے؛ بلکہ جس طرح زکوۃ اور صدقۂ فطر ہر سال واجب ہوتا ہے، اسی طرح ہر صاحبِ نصاب پر قربانی ہر سال واجب ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنیہ منورہ کے قیام کے دس سالہ دورانیہ میں ہر سال قربانی فرمائی ہے جیساکہ اوپر روایت میں گزرا۔
قربانی کے بعض اہم مسائل
سب سے پہلے قربانی میں نیت کی اصلاح کرے، اگر محض گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کرے، عبادت کی نیت نہ کرے تو اس کو قربانی کا ثواب نہیں ملتا، اگر ایسے لوگوں نے کسی اور کے ساتھ حصہ رکھا ہو تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی (البحر الرائق : ۸؍۱۹۷)
 قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت نہیں، قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہیں، ان میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے، البتہ پہلے دن کرناافضل ہے (البحر الرائق : ۸؍۱۷۶)
بھیڑ، بکرا، دنبہ، ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے، گائے، بیل، بھینس، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے (الفتاوی الہندیہ : ۵؍۳۰۴، طبع رشیدیہ، کوئٹہ )بشرطیکہ سب کی نیت ثواب کی ہو، کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو، بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے، بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھرکامعلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے، گائے، بھینس دوسال کی، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے، ان سے کم عمروں سے کم جانورقربانی کے لئے کافی نہیں، (الفتاوی الہندیہ : ۵؍۲۹۷)جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہو ں یا بیچ میں سے ٹوٹ گئے ہوں اس کی قربانی درست ہے، ہاں ! سینگ جڑ سے اکھڑ گیا ہو جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں (شامی :۶؍۳۲۳)خصی بکرے کی قربانی جائز ؛ بلکہ افضل ہے (الہندیہ :۵؍۲۹۹) اندھے، کانے اور لنگڑے جانور کی قربانی درست نہیں، اسی طر ح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں نہ جاسکے اس کی قربانی بھی جائز نہیں، جس جانور کا تہائی سے زیادہ کان یا دم کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں (شامی:۶؍۳۲۳)جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں (در مختار : ۵؍۲۹۸) اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں، اس کی قربانی درست نہیں (  درمختار :۴؍۱۶۵) اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا، بھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا تو اگر خریدنے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لئے اسی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحبِ نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے (درمختار :۴؍۱۶۵)
 قربانی کاگوشت خود کھائے، دوست واحباب میںتقسیم کرے، غریب مسکینوں کودے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرے، ایک اپنے لئے، ایک دوست واحباب اور عزیر واقارب کو ہدیہ دینے کے لئے اور ایک ضرورت مند نادار میں تقسیم کرنے کے لئے، الغرض کم ازکم تہائی حصہ خیرات کردے؛ لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم گوشت خیرات کیا، باقی سب کھالیا یا عزیز واقارب کو دے دے تب بھی گناہ نہیں (رد المحتار : ۶؍۳۲۸)
جانور ذبح کرتے وقت کی دعا :

’’ بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُ أَکْبَرُ،  إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ،إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن‘‘

( میںنے متوجہ کیا اپنے منہ منہ کو اسی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہو کر اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والوں میں سے، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے لئے ہے جو پالنے والا سارے جہاں کاہے ‘‘پھر جانور ضبحر کرنے کے بعد یہ دعا پڑہے :

’’اّللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدْ وَخَلِیْکَ إِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہُمَا السَّلَامُ(احمد، ابوداؤد، ترمذی، مشکوۃ، کتاب الأضحیۃ )

اے اللہ ! اس قربانی کو مجھ سے قبول فرما، جیسے کہ آپ نے قبول کیا اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے۔
اللہ عزوجل ہمیں قربانی کی صحیح حقیقت کو سمجھتے ہوئے، اس کے فضائل کے استحضار اور اس کے عبادت خالصہ ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، اس کے مسائل کو جان کراس ’’ذبح عظیم ‘‘ کے عمل کو انجام دینے کی کوشش کرے۔

مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل، MOLANA GAYAS AHNMED RASHAdI

  مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل رفيع الدين حنيف قاسمي، اداره علم وعرفان ، حيدرآباد در نایاب، یگانہ روزگار ، ممتازفعال، مت...