بسم
اللہ الرحمن الرحیم
بارش کی کمی! اسباب اور
تدارک
وادی مصطفی شاہین نگر ،حیدرآباد۔
09550081116
rafihaneef90@gmail.com
ادھر کئی
ایک سال سے ملک میں بارش کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ، جس کی وجہ سے اشیائِ خوردنی
کی گرانی ہوش ربا ہوتی جارہی ہے ، پیداوار اور طلب میںعدم توازن کی وجہ سے مارکیٹوں
میںاناج اورغلہ بھی مہنگے ہوتے جارہے ہیں ، عام اشیاء خوردنی دال چاول وغیرہ تو عام
آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے جارہے ہیں، ایسے میں جہاں سارا وبال حکومتوں اور بر سر
اقتدار جماعتوں پر ڈال دیا جاتا ہے ، یہ بھی بجا ہے کہ ''أعمالکم عمالکم'' (تمہارے
شامتِ اعمال کے نتیجے میں ہی تم پر تمہارے حکام طئے ہوتے ہیں) اناج اور پیداوار کی کمی ، روز مرہ کے استعمال
کی اشیاء کی ہوش ربا گرانی،مہنگائی ، غربت ، افلاس کے جہاں دیگر اسباب ہوسکتے ہیں ،
ان میں سے ایک اہم سبب بارش کی کمی کا ہونا بھی ہے ، ادھر چند ایک سالوں سے خصوصا ہمارے
ملک کو بارش کی قلت کا سامنا ہے ،ابھی کچھ سالوں قبل ساری رات ہونے والی بارش کے نتیجے
میں صبح جب پانی کے بہاؤ کا ساماں اور گڑگڑاہٹ ہر چہار جانب کئی کئی دنوں تک سنائی
دیتی تو دل باغ باغ ہو جایا کرتے تھے اور وہ منظر نہایت قابل دید ہوا کرتا تھا، اب
بارش کی یہ صورتحال ہوگئی ہے ، کچھ علاقے تو بارش کی بہتات کی وجہ سے بھیانک سیلابوں
سے جوجھ رہے ہیں تو دوسری طرف بالکل بارش کا موسم گذرنے پر آسمانوں سے پانی کے قطروں
کے لئے لوگ ترس رہے ہیں، جب بھی بادل امڈ آتے ہیں ہلکی سی رند اور بوندا باندی کا سلسلہ
قائم ہوجاتا ہے تو دلوں میں یہ چاہت چاہت تک ہی برقرار رہتی ہے کہ یہ بارش کی بوندا
باندی سے موسلادھار بارش میں تبدیل ہوجائے ، اب اس وقت موسم گرما کی ابتدا ہی میں دھوپ
کی تمازت اور شدت کی وجہ سے کھیتی اور کاشت کاری کے لئے پانی کی فراہمی دورکی رہی ،
پینے کے لئے پانی تک دشواری سے میسر ہوپارہا ہے ، زمین میں پانی کی کمی کا اثر بوریلوں
پر بھی خاص طور پر نظر آرہا ہے ۔
اس تحریر
کے ذریعے اس بات کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے کہ بارش کے موسم کے آمد کے قبل ہی سے
ہم امور سے اجتناب کریں اور بارش کی کمی کے اسباب ووجوہات کا پتہ چلا کر ان کے تدارک
کی کوشش کریں اور رحمت ایزدی اور اللہ کی اس عظیم عطا وبخشش کو اپنی جانب مبذول کرنے
والے بنیں۔
بارش کی کمی کے اسباب :
قرآن آیات
واحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تین اسباب ملتے ہیں جو بارش کی کمی کے کی وجہ
بنتے ہیں، ہم ان اساب کے ذکر سے پہلے ایک حدیث کا ذکر کرتے ہیں، جس میں بارش کی کمی
کے اسباب کا ذکر آیا ہے :
حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری
طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے جماعت مہاجرین !پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہو جاؤ اور
میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔(١) اول یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو
اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں
(٢)جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور بادشا ہوں (حکمرانوں)کے ظلم
وستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے(٣) جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوة نہیں دیتی تو بارش
روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ بر سے(٤)جو قوم اللہ
اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالی غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے
جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں(٥) جب مسلمان حکمران
کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے
کچھ احکام)اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی اس قوم کو خانہ
جنگی اور) باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔
اس حدیث کی
روشنی میں جہاں موجودہ سارے عالم میں مسلم امت کو درپیش احوال اور مسائل کے اسباب کو
بتلایا گیا ہے ، وہیں اس میں بارش اور پانی کی کمی کے دواسباب کا تذکرہ بھی کیا گیا
ہے ۔(١) تو یہ کہ ناپ تول میں کمی کی وجہ سے قحط اور بھوک مری عام کردی جاتی ہے
(٢) یہ کہ زکوة کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بارش روک لی جاتی ہے (٣)تیسری وجہ جس کا تذکرہ
قرآن کریم کی آیات میں بے شمار مقامات پر آیا ہے وہ معاصی اور گناہوں میں ابتلاء عام
ہے ۔
ناپ تول میں کمی بارش کی کمی کا سبب:
تجارت میں
ایک بڑا گناہ اور معصیت ، کم ناپنا اور کم تولنا ہے ، یعنی جب کوئی چیز کسی کو بیچی
جائے تو جتنا اس خریدنے والے کا حق ہے اس سے کم تول کردے ، عربی میں کم ناپنے اور تولنے
کو ''تَطْفِیْف'' کہاجاتا ہے اور یہ ''تطفیف '' صرف تجارت اور لین دین کے لئے مخصوص
نہیں ؛بلکہ ''تطفیف'' کا مفہوم بہت وسیع ہے ، وہ یہ کہ دوسرے کا جو بھی حق ہمارے ذمہ
واجب ہے اس کواگر اس کا حق کم کرکے دیں تو یہ ''تطفیف'' کے اندر داخل ہے ۔اللہ تعالی
کا ارشاد ہے :
''بڑی خرابی
ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ، جن کا یہ حال ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز
ناپ کر لیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں
تو گھٹا کر دیتے ہیں ، کیا یہ لوگ سوچتے نہیں کہ انہیں ایک بڑے زبردست دن میں زندہ
کر کے اٹھایاجائے گا جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوںگے ۔''(المطففین:
١۔٦)اس ناپ تول کے عظیم گناہ میں ابتلاء عام کی وجہ سے بارش کی کمی اور ، قحط اور بھوک
مری عام ہوجاتی ہے ، اسی کو حدیث میں فرمایا:'' لا أخذوا بالسنین وشدة المؤنة وجورالسلطان''
( یعنی جب وہ لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے قحط ،بارش کی کمی اور سلاطین
کے جور وظلم میں مبتلا کئے جاتے ہیں ) آج کل بازاروں میں دھوکہ دہی، ہوشیاری سے مالوں
کا سرقہ، اچک لینا اور ملمع سازی اور مصنوعیت کے ذریعے لوگوں کو لبھانا یہ ساری چیزیں
اسی کے تحت آتی ہیں۔
زکوة کی عدم ادائیگی بارش کی کمی کا سبب:
جن دیگر اسباب
سے بارش کی کمی واقع ہوتی ہے ، جس کااثر بلا امتیاز امیر وغریب ، غنی وفقیرکے سب پر
ہوتا ہے ، وہ زکوة کی ادائیگی میں تساہل اور غفلت ہے ، امراء بے شمار اموال اپنے یہاں
رکھ کر اس کی زکوة کی ادائیگی اگر کرتے ہیں مکمل ادائیگی نہیں کرتے یا زکوة بالکل ہی
نہیں دیتے اور اللہ عزوجل نے در اصل زکوة کی شکل میں امیروں کے مالوں میں غریبوں کا
حصہ رکھا ہے ، وہ جب اپنے اموال میں غریبوں کا حصہ بھول جاتے ہیں اور اس کی ادائیگی
نہیں کرتے تو غضب خداوندی کی شکل میں بارش روک دی جاتی ہے ، بقیہ زکاة کی عدم ادائیگی
کے دیگر عذابات اپنی جگہ ہیں۔اسی کو رسول اللہ ۖ
نے فرمایا: '' ولم یمنعوا زکاة أموالھم لا منعوا القطرمن السمائ'' (جب یہ اپنے اموال
کی زکوة کی ادائیگی نہیں کرتے تو اس کی وجہ سے آسمانوں سے بارشیں روک دی جاتی ہیں)۔
معاصی اور گناہ میں ابتلاء عام بارش کی کمی کا سبب:
معاصی اور
گناہ میں ابتلاء عام کی وجہ سے بھی بارش ، قحط اور بھوک مری عام اور بارش کی کمی کردی
جاتی ہے ، آج اللہ کے اوامر اور احکامات پر عمل کرنے والے تو بہت کم رہے ، معاصی اور
گناہوں کی بہتات ہے ، سود خوری، زنا کاری، گانا بجانا، بے پردگی ، جھوٹ ، دھوکہ دہی،
چوری ، حسد، غیبت ، چغلی ، نہ جانے ہر قسم کی برائیاں ہمارے اندر موجو د ہیں، بے حیائی
اور بے پردگی اور گانے بجانے کا فتنہ اور گناہ تو مسلمان اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے ،
انہیں معاصی اور گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذابات نازل ہوتے ہیں،اسی کو اللہ عزوجل
نے فرمایا:'''خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ
انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں'(الروم: ١٤) اور اللہ عزوجل
نے فرمایا :''اور اگر(مکہ والے)سیدھے راستے پر قائم رہتے تو ہم ان کو با افراط پانی
سے سیراب کرتے''(سورة الجن: ١٦)۔اور ایک جگہ معاصی سے بچ کر اطاعت خداوندی میں لگنے
والوں کے بارش کی رحمت کے بے پایاں برسانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:''اور اگر بستیوں
والے ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے نعمتوں کے دروازے کھول دیتے
لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کے اعمال کے سبب سے گرفت کی''(الأعراف:
٩٦)۔''برکات من السمائ'' سے مراد علامہ ابن کثیر نے فرمایا: آسمان سے قطرے اور زمین
کے غلے ہیں(تفسیر ابن کثیر: ١٥٤٣)
ماضی کی امتوں
پر بھی معاصی اور گناہوں اور رب کی نافرمانیوں کی نتیجے میں بارش روک دی گی تھی ارشاد
باری عزوجل ہے :''اور ہم نے فرعون والوں کو قحطوں میں اور میوں کی کمی میں پکڑ لیا
تاکہ وہ نصیحت مانیں''(الأعراف:١٣٠)۔اور ماضی کی امتوں کے تعلق سے فرمایا اگر وہ تورات
وانجیل پر کما حقہ عمل پیرا ہوتے تو ہم ان پر ہر قسم کی آسمان وزمین کی کشادگی کرتے
ارشاد باری ہے :''اور اگر وہ تورات اور انجیل کوقائم رکھتے اور اس کو جو ان پر ان کے
رب کی طرف سے نازل ہوا ہے تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاں کے نیچے سے کھاتے کچھ لوگ ان
میں سیدھی راہ پر ہیں اور اکثر ان میں سے برے کام کر رہے ہیں''(المائدة:٦٦)۔
اگر جانور نہ ہوتے تو بارش ہی نہ ہوتی:
اسی مذکورہ
حدیث میںایک اور جملہ نہایت قابل توجہ ہے کہ ان معاصی اور گناہوں اور بارش کی کمی کے
اسباب میں ابتلاء کے باوجود کچھ بارش ہوجاتی بھی ہے تو وہ ان جانورں اور بے زبان مخلوقات
کی وجہ سے جو ہر دم اللہ کی تسبیح وتحمید اور حمد وثناء میں لگی رہتی ہے ، ''وَِنْ
مِنْ شَیْئٍ ِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلٰکِنْ لَا تَفْقَھُونَ تَسْبِیْحَھُمْ''(السرا:
٤٤) اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اسکی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح
کو نہیں سمجھتے بیشک وہ بردبار بخشنے والا ہے۔ اسی کو نبی کریم ۖ
نے مذکورہ بالا حدیث شریف میں فرمایا:''لولا البھائم لم یُمطروا''(اگر جانور نہ ہوتے
تو بارش ہی نہ ہوتی) ۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سرخاب(ایک قسم کے پرندہ) بھی اپنے گھونسلوں میں
ظالم کے ظلم کی وجہ سے مر جاتے ہیں )(تفسیر الطبری، ٢٣١١٧،مؤسسة الرسالة بیروت)حضرت
مجاہد فرماتے ہیں کہ :جب قحط اور بھوک مری عام ہوجاتی ہے اور بارش رک جاتی ہے جانور
عاصی اور گناہ گار بنی آدم پر لعنت وملامت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قحط سالی اور
بارش کی کمی ابن آدم کی ارتکاب معاصی کی وجہ سے ہے ۔(الموسوعة الکویتیة:آثار المعاصی،
٢١٠٣٨)
حضرت عکرمہ
فرماتے ہیں کہ :
''زمین کے
جانور اور کیڑے مکوڑے حتی شیر اور گبرے اور بچھو بھی یہ کہتے ہیں:ابن آدم کے گناہوں
اور معاصی کی وجہ سے ہم پر بارش روک دی گئی''(الدر المنثور:٣٩١١، مکتبة المعارف، بیروت)
کرنے کے کام :
اگر اللہ
کی رحمت کو اپنے جانب متوجہ کرنا ہے تو سب سے پہلے خصوصا ناپ تول کمی سے بچنا اور زکوة
کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر معاصی خصوصا بے حیائی ،ناچ
گانے اور بے پردگی وغیرہ سے بچنے کا خوب اہتمام کرے ، صلاة استقاء اور دعاؤں میں بارش
کی طلب کریں اور قبولیت دعا کے لئے حلال کھانوں کا اہتمام کریں ، حلال کھانے سے حلال
کاموں کی توفیق ہوتی ، حرام حرام کاموں کا باعث ہوتا ہے ، اس لئے معاملات میں صفائی
کا اہتمام خوب کریں ، اس طرح ہم رحمت خداوندی اور بارش کو اپنی جانب متوجہ کرسکتے ہیں
۔
No comments:
Post a Comment