بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ تم نے کیا
کہہ دیا؟
رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی
مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
سیاست میں پارٹیوں کا ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید
بنانااور ایک دوسرے کی کمی کوتاہی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اپنی اچھائی سچائی
اور خوبی کے گن گانا ایک معمولی سا عمل ہے ، یہ ہر سیاسی پارٹی کا وطیرہ اور طرہ
رہا ہے کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کے دور قیادت کو برا کہتی ہے اور اپنے دور اقتدار
کو بہتر اور خوب تر گردانتی ہے ، اپنی پارٹی کی ترقی اور عروج کے لئے اس کی قصیدہ
خوانی خواہ وہ حقیقت سے کس قدر دور کیوں نہ ہوں ، یہ معمولی کاسا عمل ہے ، لیکن بر
سر اقتدار حکمراں پارٹی نے دیگر پارٹیوں کو ہدف تنقید بنانا اور ان کے مٹی پلید
کرنا اور ان کے نام ونشان کو مٹانا اور ان کی خامیوں کا اظہار وافشاء تو ٹھیک رہا
؛ لیکن ان کی خوبیوں کو بھی خامیوں میں بدلنا اور کسی بھی پارٹی کو تنقید کے نشانہ
بنانے کے لئے جو حربے اور وسیلے حکمراں بر سر اقتدار جماعت اختیار کر رہی ہے ، یہ
کسی بھی طرح اخلاقی پیمانہ میں نہیں سماتے ، ہمیشہ سے ہندوستان ایک مذہبی ملک رہا
ہے ،سچائی ، صداقت، اہنسا ، بھائی چارہ ، میل میلاپ ،اخلاق واقدار پر یہاں کے باسیوں
کی گرفت مضبوط رہی ہے ، وہ اپنے ملک کی ریت ورسم اور یہاں کے اخلاقی پیمانوں کو
بداخلاقی کے کیچڑ میں ڈال کر تباہ وبرباد کرنا نہیں چاہتے ، لیکن بر سر اقتدار
حکمراں دوسرے پارٹیوں کو خامیوں کو اجاگر ضرور کرتے ، لیکن اس میں حد سے تجاوز کر
جانااور میڈیا کے سہارے کسی بھی پارٹی کو اس قدر نشانہ بنانا اور اس کی امیج خراب
کر نے کوشش کرنااور حقائق اور سچائیوں اور صداقتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، یہ
ہماری ریت ورسم اور ہمارے ملک کے اخلاقی پیمانوں کے ہم آہنگ وہم رنگ نہیں ، اگر
اپوزیشن اور مخالف پارٹی کو ہدف تنقید بنانے کاعمل اس سے تجاوز کر کے ملک کی اہانت
کے دائرہ میں آتا ہے تو یہ نہایت قبیح عمل شمار ہوتا ہے ، اس ملک کا ہر باسی اپنے
اس ملک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے ، وہ کیوں کر ملک کی توہین والے الفاظ
برداشت کرسکتا ہے ، ملک کے وزیر اعظم کے دور ہ جنوبی کوریا کے موقع سے اپنے بیانات
میں انہوں نے اپنی ایک سالہ دورِ حکمرانی کی تعریف کے پل باندھنے اور مخالف پارٹیوں
اور ان کے دور اقتدار ؛ بلکہ ہندوستان کے پچھلے تمام ادوار کو انہوں نے بالکل نیچا
اور عمل ، جدوجہد اور ترقی وعروج کے لحاظ سے بالکل کمتر او ر حقیر تر گردانا ہے ،
ہمارے ملک کی ایک تاریخ ہے جو بہت قدیم ہے ، یہاں پر جنگ وجدال وحکمرانی کے مختلف
ادوار اور نشیب وفراز رہے ہیں ، کتنے سلاطین آئے اور کتنی حکومتیں پنپیں اور انہوں
نے اپنے مختلف ادوار میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ،، لیکن صرف اپنی ایک سالہ
حکمرانی کی اس قدر قصیدہ خوانی کے پچھلے ہندوستان کی تاریخ کے تمام تھیکے اور پھیکے
نظر آئیں یہ بات قرین قیاس اور عقل سے ماوراء نظر آتی ہے، ملک کے وزیر اعظم کے کا یہ
ریماک کہ'' ایک سال قبل ہندوستانی ہونے پر عارمحسوس ہوتا تھا'' یہ جملہ جہاں انانیت
، غرور وگھمنڈ کا ترجمان ہے ، حقیقت سے بھی کوسوں ہے ، صرف مبالغہ آرائی اور ملمع
سازی پر مبنی ہے، اور ایک طرح سے یہ ملک کی اہانت کے بھی مترادف ہے کہ ملک کے
موجودہ وزیر اعظم خود اپنے ملک کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، انہیں اپنی
حکمرانی پر اتنا ناز اور فخر ہے ، وہ اپنے جملہ میں پہناں ہزاروں دیگر معانی ومفاہیم
سے یکسر اپنی آنکھ موند لئے ہے ، اس جملہ سے گرچہ وہ اپنی حکمرانی کے قصیدے پڑھنا
چاہتے ہیں ؛ لیکن اس ملک کی اہانت بھی لازم آتی ہے کہ اپنے دور حکمرانی کی شروعات
سے قبل ہندوستان اس قابل نہیں تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کی وہ رہائش بن سکے ، ایسی
کیاوجہ تھی کہ ملک کی فضاء ان کو راس نہیں آئی ؟ کیا ملک کے باشندے نیچ اور حقیر
تھے ؟ یا یہاں کی تہذیب وتمدن اور رکھ رکھاؤ میں برائی تھی، بجا طور ملک کے وزیر
اعظم کے اس ریمارک پر ملک کے 38ہزارسے زائد باسیوں نے ٹوٹیر پروزیر اعظم کے اس ریمارک
کی مذمت کی ، بعض لوگوں نے تو ان ریمارکس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا
کہ مودی خود اپنے ملک کو بدنما اور داغدار بنار ہے ہیں ، ٹویٹر کے ایک صارف نے یہ
تحریر کیا کہ '' مودی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں
ہندوستان میں پیدا ہونے پر شرم وعار محسوس ہوتا ہے ، جب کہ ہر ہندوستانی کو اپنے
ملک کے شہری ہونے پر ہمیشہ ہی سے فخر رہا ہے ''مودی نے سیوول میں پیر کے دن
ہندوستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: '' ہم نے ماضی میں کونسے ایسے
گناہ کئے تھے کہ ہندوستانی سرزمین پر پیدا ہوئے ، کیا یہ مملکت ہوسکتی ہے ؟ کیا یہاں
کوئی حکومت ہے ؟ ہم اس ملک کو خیر آباد کہہ دیں گے(یعنی اپنے دور اقتدار سے قبل
ہندوستانیوں کا یہ رجحان تھا)مزید یہ کہا کہ: '' ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہندوستانی
عوام اس ملک کو چھوڑدینے کے خواہشمند تھے ، تاجربرادری کہا کرتی تھی کہ ہمیں اس
ملک میں کاروبار نہیں کرنا چاہئے، یہ تمام افراد اب اپنے ملک کو واپسی کے خواہاں ہیں''حقیقت
یہ ہے کہ ملک کا جو بھی ملک سے باہر کسی بھی ملک میں جاتا ہے اس کے پیش نظر ملک کی
ترقی ، نیک نامی ، ملک اور اہل ملک کی معاشی استحکام ومضبوطی اور ترقی یافتہ ممالک
میں اپنے روشن اور تابندہ کارناموںسے اپنے ملک کی شہرت اور عزت مقصود بنا کر جاتا
ہے ، ایسے ناجانے کتنے ہندوستانیوں نے بیرونِ ملک رہ کر اپنے کارہائے نمایاں سے
اپنے ملک کا نام بیرونِ ملک روشن کیا، وہ تو ہر گز اپنے ملک کونہ چھوڑتے ، کیوں کر
کوئی شخص اپنی اس فضاء کو جس فضا ء میں اس نے لڑکپن کی آنکھیں لیں، جہاں بچپن کی
رنگ برنگی یادیں وابستہ کی ، جہاں اس کے آباء واجداد اور اس کے خونی رشتہ داری کا
سلسلہ ہے وہ اس کو چھوڑ سکتا ہے ، ہمارا ملک تو ترقی پذیر ملک ہے ،یہاں دنیا کی عظیم
جمہوریت ہے ، یہاں کی مستقل تہذیب ورایات ہیں ، یہاں امن وسکون ہے ، اس سے کیوں کر
کوئی فرار اختیار کرسکتا ہے ۔کیوں کر کوئی اس ملک میں رہنے میں عار وشرمندگی محسوس
کرسکتاہے ،اجنبی ملک اجنبی ہی ہوتا ہے ،یہاں اس کے اپنے اہل وعیا ل کے علاوہ اس کا
کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔وہ اجنبی ملک میں سب کچھ رکھتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کی
کمی محسوس کرتا ہے ؛ صرف ملک کاباشندہ ملک کے باہر جاتا ہے تو ملک کی معیشت اور
استحکام اور ملک کی نیک نامی کے لئے ۔آج بھی این آر آئیز کے مسائل اخبارات کی زینت
بنتے ہیں ، کسی بھی این آر آئیز سے اس کے کے دل کو ٹٹولیئے کہ وہ کیا وہ اپنے ملک
سے دوری پر راضی ہے ، لیکن اس کی مجبوری ہے خواہ ترقی کی خواہش کی شکل میں ہو، یا
معاشی استحکام کی شکل میں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک میں اپنے زندگی کے تلخ ایام
گذارنے پر مجبور ہے ۔
No comments:
Post a Comment