Saturday 30 May 2015

اس رات کے محروم لوگ

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد

rafihaneef90@gmail.com
ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ عزوجل کے بے پایاںاحسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں،انہیں دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں''لیلة المبارکہ''لیلة الصک'' ''لیلة القدر''۔ (تفسیرالقرطبی:١٢٧١٦)اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر٣میں مذکور''لیلة مبارکہ''کی تفسیرحضرت عکرمہ نے''لیلة البراة''(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی١٧٣٤)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ''حمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،ِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ '' (الدخان:١ـ٤)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلة البراء ة کہتے ہیں،(عکرمہ بروایت جریر)
اس کو لیلة البراء ة اس لئے کہتے ہیں ، اس کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براة وخلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباس سے روایت کرتے ہیں''اللہ عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)داد ودہش اور نوازش کی رات:یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ''آگاہ ہوجاؤ''کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروںہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجائ،فی لیلة النصف من شعبان،حدیث:١٣٨٨)اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ''ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:١٨٨٦)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔عام معافی اورمغفرت کی رات
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان کرناچاہیے حضوراکرم  ۖنے اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ   سے مروی ہے کہ آپ  ۖنے فرمایا:''پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان:حدیث٧٣٩)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔اس رات کے محروم لوگعمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیںان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (١)مشرک (٢)کینہ پرور(٣)چغل خور(٤)زانی (٥)والدین کا نافرمان (٦)سودکھانے والا(٧) شرابی (٨)کا ناحق قتل کرنے والا (٩)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔(١٠)اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے والا(١١) قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،حدیث٣٥٥،فضائل الاوقات بیہقی،حدیث ٢٧)١۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے ''اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم'' (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:١٣)اور ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :''بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا''(النسائ:٤٨)حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایاہے:'' اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ تفصیلات یہ ہیں:علم میں شریک ٹھہرانا:-یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ''(معارف القرآن)(١)  کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں کا مجموعہ ہے :امام غزالی  نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں: حسد، شماتت، سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ کرنا(کیمیائے سعادت: ٣٣٣)کینہ پرور کی بخشش نہیںہوتی اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں(مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:٢٥٦٥)٣۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید بتلایا گیا ہے'' الغیبة أشد من الزنا'' غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع الزوائد: باب ما جاء فی الغیبة والنمیمة،حدیث:١٣١٢٨)اور ایک روایت میں فرمایا:''لا یدخل الجنة قتّات'' (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من النمیمة، حدیث:٢٠٥٦)٤۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی کریم ۖ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں۔
٥۔والدین کا نافرمان:والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں،  عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے ایک تو  نافرمانی کرنے والا شخص یعنی والدین کی  نافرمانی کرنے والا شخص اور دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند عبد اللہ بن عمر،حدیث:٦١٨٠)٦۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجة، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:٢٢٧٣)٧۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیںہوتی، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث٣٦٦٧)
٨۔قتل ناحق:بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا ، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو قرآن کریم میںیوں بیان کیا گیا:'' اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس  میں رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ''(النسائ:٩٣)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔٩۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے محروم لوگوں میں شامل ہیں، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ''جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ''(مسلم: ، حدیث:١٦٠٥)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجة:حدیث:٢١٥٥)١٠۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ۖ نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا ،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:٦٣)۔
١١۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا:مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ، پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمۖ کا ارشاد گرامی ہے :'' ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے ''(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:٥٧١٣)
آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔




ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ عزوجل کے بے پایاںاحسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں،انہیں دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں''لیلة المبارکہ''لیلة الصک'' ''لیلة القدر''۔ (تفسیرالقرطبی:١٢٧١٦)
اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر٣میں مذکور''لیلة مبارکہ''کی تفسیرحضرت عکرمہ نے''لیلة البراة''(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی١٧٣٤)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ''حمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،ِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ '' (الدخان:١ـ٤)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلة البراء ة کہتے ہیں،(عکرمہ بروایت جریر)
اس کو لیلة البراء ة اس لئے کہتے ہیں ، اس کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براة وخلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباس سے روایت کرتے ہیں''اللہ عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
داد ودہش اور نوازش کی رات:
یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔
لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ''آگاہ ہوجاؤ''کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروںہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجائ،فی لیلة النصف من شعبان،حدیث:١٣٨٨)
اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ''ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:١٨٨٦)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔
عام معافی اورمغفرت کی رات
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان کرناچاہیے حضوراکرم  ۖنے اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ   سے مروی ہے کہ آپ  ۖنے فرمایا:''پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان:حدیث٧٣٩)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔
اس رات کے محروم لوگ
عمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟
یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیںان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (١)مشرک (٢)کینہ پرور(٣)چغل خور(٤)زانی (٥)والدین کا نافرمان (٦)سودکھانے والا(٧) شرابی (٨)کا ناحق قتل کرنے والا (٩)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔(١٠)اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے والا(١١) قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،حدیث٣٥٥،فضائل الاوقات بیہقی،حدیث ٢٧)
١۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے ''اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم'' (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:١٣)اور ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :''بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا''(النسائ:٤٨)
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایاہے:
'' اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ تفصیلات یہ ہیں:
علم میں شریک ٹھہرانا:-
یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔
اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔
عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ''(معارف القرآن)
(١)  کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں کا مجموعہ ہے :
امام غزالی  نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں: حسد، شماتت، سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ کرنا(کیمیائے سعادت: ٣٣٣)
کینہ پرور کی بخشش نہیںہوتی اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں(مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:٢٥٦٥)
٣۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔
ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید بتلایا گیا ہے'' الغیبة أشد من الزنا'' غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع الزوائد: باب ما جاء فی الغیبة والنمیمة،حدیث:١٣١٢٨)اور ایک روایت میں فرمایا:''لا یدخل الجنة قتّات'' (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من النمیمة، حدیث:٢٠٥٦)
٤۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی کریم ۖ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں۔
٥۔والدین کا نافرمان:
والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں،  عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے ایک تو  نافرمانی کرنے والا شخص یعنی والدین کی  نافرمانی کرنے والا شخص اور دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند عبد اللہ بن عمر،حدیث:٦١٨٠)
٦۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجة، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:٢٢٧٣)
٧۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیںہوتی، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث٣٦٦٧)
٨۔قتل ناحق:
بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا ، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو قرآن کریم میںیوں بیان کیا گیا:'' اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس  میں رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ''(النسائ:٩٣)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔
٩۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے محروم لوگوں میں شامل ہیں، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ''جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ''(مسلم: ، حدیث:١٦٠٥)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجة:حدیث:٢١٥٥)
١٠۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ۖ نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا ،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:٦٣)۔
١١۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا:
مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ، پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمۖ کا ارشاد گرامی ہے :'' ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے ''(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:٥٧١٣)
آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔


اس رات کے محروم لوگ
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ عزوجل کے بے پایاںاحسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں،انہیں دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں''لیلة المبارکہ''لیلة الصک'' ''لیلة القدر''۔ (تفسیرالقرطبی:١٢٧١٦)
اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر٣میں مذکور''لیلة مبارکہ''کی تفسیرحضرت عکرمہ نے''لیلة البراة''(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی١٧٣٤)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ''حمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،ِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ '' (الدخان:١ـ٤)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلة البراء ة کہتے ہیں،(عکرمہ بروایت جریر)
اس کو لیلة البراء ة اس لئے کہتے ہیں ، اس کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براة وخلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباس سے روایت کرتے ہیں''اللہ عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
داد ودہش اور نوازش کی رات:
یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔
لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ''آگاہ ہوجاؤ''کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروںہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجائ،فی لیلة النصف من شعبان،حدیث:١٣٨٨)
اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ''ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:١٨٨٦)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔
عام معافی اورمغفرت کی رات
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان کرناچاہیے حضوراکرم  ۖنے اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ   سے مروی ہے کہ آپ  ۖنے فرمایا:''پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان:حدیث٧٣٩)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔
اس رات کے محروم لوگ
عمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟
یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیںان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (١)مشرک (٢)کینہ پرور(٣)چغل خور(٤)زانی (٥)والدین کا نافرمان (٦)سودکھانے والا(٧) شرابی (٨)کا ناحق قتل کرنے والا (٩)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔(١٠)اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے والا(١١) قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،حدیث٣٥٥،فضائل الاوقات بیہقی،حدیث ٢٧)
١۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے ''اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم'' (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:١٣)اور ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :''بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا''(النسائ:٤٨)
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایاہے:
'' اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ تفصیلات یہ ہیں:
علم میں شریک ٹھہرانا:-
یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔
اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔
عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ''(معارف القرآن)
(١)  کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں کا مجموعہ ہے :
امام غزالی  نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں: حسد، شماتت، سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ کرنا(کیمیائے سعادت: ٣٣٣)
کینہ پرور کی بخشش نہیںہوتی اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں(مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:٢٥٦٥)
٣۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔
ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید بتلایا گیا ہے'' الغیبة أشد من الزنا'' غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع الزوائد: باب ما جاء فی الغیبة والنمیمة،حدیث:١٣١٢٨)اور ایک روایت میں فرمایا:''لا یدخل الجنة قتّات'' (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من النمیمة، حدیث:٢٠٥٦)
٤۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی کریم ۖ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں۔
٥۔والدین کا نافرمان:
والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں،  عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے ایک تو  نافرمانی کرنے والا شخص یعنی والدین کی  نافرمانی کرنے والا شخص اور دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند عبد اللہ بن عمر،حدیث:٦١٨٠)
٦۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجة، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:٢٢٧٣)
٧۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیںہوتی، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث٣٦٦٧)
٨۔قتل ناحق:
بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا ، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو قرآن کریم میںیوں بیان کیا گیا:'' اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس  میں رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ''(النسائ:٩٣)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔
٩۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے محروم لوگوں میں شامل ہیں، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ''جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ''(مسلم: ، حدیث:١٦٠٥)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجة:حدیث:٢١٥٥)
١٠۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ۖ نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا ،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:٦٣)۔
١١۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا:
مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ، پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمۖ کا ارشاد گرامی ہے :'' ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے ''(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:٥٧١٣)
آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔


Monday 25 May 2015


بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ تم نے کیا کہہ دیا؟
رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com

سیاست میں پارٹیوں کا ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بنانااور ایک دوسرے کی کمی کوتاہی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اپنی اچھائی سچائی اور خوبی کے گن گانا ایک معمولی سا عمل ہے ، یہ ہر سیاسی پارٹی کا وطیرہ اور طرہ رہا ہے کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کے دور قیادت کو برا کہتی ہے اور اپنے دور اقتدار کو بہتر اور خوب تر گردانتی ہے ، اپنی پارٹی کی ترقی اور عروج کے لئے اس کی قصیدہ خوانی خواہ وہ حقیقت سے کس قدر دور کیوں نہ ہوں ، یہ معمولی کاسا عمل ہے ، لیکن بر سر اقتدار حکمراں پارٹی نے دیگر پارٹیوں کو ہدف تنقید بنانا اور ان کے مٹی پلید کرنا اور ان کے نام ونشان کو مٹانا اور ان کی خامیوں کا اظہار وافشاء تو ٹھیک رہا ؛ لیکن ان کی خوبیوں کو بھی خامیوں میں بدلنا اور کسی بھی پارٹی کو تنقید کے نشانہ بنانے کے لئے جو حربے اور وسیلے حکمراں بر سر اقتدار جماعت اختیار کر رہی ہے ، یہ کسی بھی طرح اخلاقی پیمانہ میں نہیں سماتے ، ہمیشہ سے ہندوستان ایک مذہبی ملک رہا ہے ،سچائی ، صداقت، اہنسا ، بھائی چارہ ، میل میلاپ ،اخلاق واقدار پر یہاں کے باسیوں کی گرفت مضبوط رہی ہے ، وہ اپنے ملک کی ریت ورسم اور یہاں کے اخلاقی پیمانوں کو بداخلاقی کے کیچڑ میں ڈال کر تباہ وبرباد کرنا نہیں چاہتے ، لیکن بر سر اقتدار حکمراں دوسرے پارٹیوں کو خامیوں کو اجاگر ضرور کرتے ، لیکن اس میں حد سے تجاوز کر جانااور میڈیا کے سہارے کسی بھی پارٹی کو اس قدر نشانہ بنانا اور اس کی امیج خراب کر نے کوشش کرنااور حقائق اور سچائیوں اور صداقتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، یہ ہماری ریت ورسم اور ہمارے ملک کے اخلاقی پیمانوں کے ہم آہنگ وہم رنگ نہیں ، اگر اپوزیشن اور مخالف پارٹی کو ہدف تنقید بنانے کاعمل اس سے تجاوز کر کے ملک کی اہانت کے دائرہ میں آتا ہے تو یہ نہایت قبیح عمل شمار ہوتا ہے ، اس ملک کا ہر باسی اپنے اس ملک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے ، وہ کیوں کر ملک کی توہین والے الفاظ برداشت کرسکتا ہے ، ملک کے وزیر اعظم کے دور ہ جنوبی کوریا کے موقع سے اپنے بیانات میں انہوں نے اپنی ایک سالہ دورِ حکمرانی کی تعریف کے پل باندھنے اور مخالف پارٹیوں اور ان کے دور اقتدار ؛ بلکہ ہندوستان کے پچھلے تمام ادوار کو انہوں نے بالکل نیچا اور عمل ، جدوجہد اور ترقی وعروج کے لحاظ سے بالکل کمتر او ر حقیر تر گردانا ہے ، ہمارے ملک کی ایک تاریخ ہے جو بہت قدیم ہے ، یہاں پر جنگ وجدال وحکمرانی کے مختلف ادوار اور نشیب وفراز رہے ہیں ، کتنے سلاطین آئے اور کتنی حکومتیں پنپیں اور انہوں نے اپنے مختلف ادوار میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ،، لیکن صرف اپنی ایک سالہ حکمرانی کی اس قدر قصیدہ خوانی کے پچھلے ہندوستان کی تاریخ کے تمام تھیکے اور پھیکے نظر آئیں یہ بات قرین قیاس اور عقل سے ماوراء نظر آتی ہے، ملک کے وزیر اعظم کے کا یہ ریماک کہ'' ایک سال قبل ہندوستانی ہونے پر عارمحسوس ہوتا تھا'' یہ جملہ جہاں انانیت ، غرور وگھمنڈ کا ترجمان ہے ، حقیقت سے بھی کوسوں ہے ، صرف مبالغہ آرائی اور ملمع سازی پر مبنی ہے، اور ایک طرح سے یہ ملک کی اہانت کے بھی مترادف ہے کہ ملک کے موجودہ وزیر اعظم خود اپنے ملک کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، انہیں اپنی حکمرانی پر اتنا ناز اور فخر ہے ، وہ اپنے جملہ میں پہناں ہزاروں دیگر معانی ومفاہیم سے یکسر اپنی آنکھ موند لئے ہے ، اس جملہ سے گرچہ وہ اپنی حکمرانی کے قصیدے پڑھنا چاہتے ہیں ؛ لیکن اس ملک کی اہانت بھی لازم آتی ہے کہ اپنے دور حکمرانی کی شروعات سے قبل ہندوستان اس قابل نہیں تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کی وہ رہائش بن سکے ، ایسی کیاوجہ تھی کہ ملک کی فضاء ان کو راس نہیں آئی ؟ کیا ملک کے باشندے نیچ اور حقیر تھے ؟ یا یہاں کی تہذیب وتمدن اور رکھ رکھاؤ میں برائی تھی، بجا طور ملک کے وزیر اعظم کے اس ریمارک پر ملک کے 38ہزارسے زائد باسیوں نے ٹوٹیر پروزیر اعظم کے اس ریمارک کی مذمت کی ، بعض لوگوں نے تو ان ریمارکس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مودی خود اپنے ملک کو بدنما اور داغدار بنار ہے ہیں ، ٹویٹر کے ایک صارف نے یہ تحریر کیا کہ '' مودی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں ہندوستان میں پیدا ہونے پر شرم وعار محسوس ہوتا ہے ، جب کہ ہر ہندوستانی کو اپنے ملک کے شہری ہونے پر ہمیشہ ہی سے فخر رہا ہے ''مودی نے سیوول میں پیر کے دن ہندوستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: '' ہم نے ماضی میں کونسے ایسے گناہ کئے تھے کہ ہندوستانی سرزمین پر پیدا ہوئے ، کیا یہ مملکت ہوسکتی ہے ؟ کیا یہاں کوئی حکومت ہے ؟ ہم اس ملک کو خیر آباد کہہ دیں گے(یعنی اپنے دور اقتدار سے قبل ہندوستانیوں کا یہ رجحان تھا)مزید یہ کہا کہ: '' ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہندوستانی عوام اس ملک کو چھوڑدینے کے خواہشمند تھے ، تاجربرادری کہا کرتی تھی کہ ہمیں اس ملک میں کاروبار نہیں کرنا چاہئے، یہ تمام افراد اب اپنے ملک کو واپسی کے خواہاں ہیں''حقیقت یہ ہے کہ ملک کا جو بھی ملک سے باہر کسی بھی ملک میں جاتا ہے اس کے پیش نظر ملک کی ترقی ، نیک نامی ، ملک اور اہل ملک کی معاشی استحکام ومضبوطی اور ترقی یافتہ ممالک میں اپنے روشن اور تابندہ کارناموںسے اپنے ملک کی شہرت اور عزت مقصود بنا کر جاتا ہے ، ایسے ناجانے کتنے ہندوستانیوں نے بیرونِ ملک رہ کر اپنے کارہائے نمایاں سے اپنے ملک کا نام بیرونِ ملک روشن کیا، وہ تو ہر گز اپنے ملک کونہ چھوڑتے ، کیوں کر کوئی شخص اپنی اس فضاء کو جس فضا ء میں اس نے لڑکپن کی آنکھیں لیں، جہاں بچپن کی رنگ برنگی یادیں وابستہ کی ، جہاں اس کے آباء واجداد اور اس کے خونی رشتہ داری کا سلسلہ ہے وہ اس کو چھوڑ سکتا ہے ، ہمارا ملک تو ترقی پذیر ملک ہے ،یہاں دنیا کی عظیم جمہوریت ہے ، یہاں کی مستقل تہذیب ورایات ہیں ، یہاں امن وسکون ہے ، اس سے کیوں کر کوئی فرار اختیار کرسکتا ہے ۔کیوں کر کوئی اس ملک میں رہنے میں عار وشرمندگی محسوس کرسکتاہے ،اجنبی ملک اجنبی ہی ہوتا ہے ،یہاں اس کے اپنے اہل وعیا ل کے علاوہ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔وہ اجنبی ملک میں سب کچھ رکھتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کی کمی محسوس کرتا ہے ؛ صرف ملک کاباشندہ ملک کے باہر جاتا ہے تو ملک کی معیشت اور استحکام اور ملک کی نیک نامی کے لئے ۔آج بھی این آر آئیز کے مسائل اخبارات کی زینت بنتے ہیں ، کسی بھی این آر آئیز سے اس کے کے دل کو ٹٹولیئے کہ وہ کیا وہ اپنے ملک سے دوری پر راضی ہے ، لیکن اس کی مجبوری ہے خواہ ترقی کی خواہش کی شکل میں ہو، یا معاشی استحکام کی شکل میں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک میں اپنے زندگی کے تلخ ایام گذارنے پر مجبور ہے ۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ تم نے کیا کہہ دیا؟
رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com

سیاست میں پارٹیوں کا ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بنانااور ایک دوسرے کی کمی کوتاہی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اپنی اچھائی سچائی اور خوبی کے گن گانا ایک معمولی سا عمل ہے ، یہ ہر سیاسی پارٹی کا وطیرہ اور طرہ رہا ہے کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کے دور قیادت کو برا کہتی ہے اور اپنے دور اقتدار کو بہتر اور خوب تر گردانتی ہے ، اپنی پارٹی کی ترقی اور عروج کے لئے اس کی قصیدہ خوانی خواہ وہ حقیقت سے کس قدر دور کیوں نہ ہوں ، یہ معمولی کاسا عمل ہے ، لیکن بر سر اقتدار حکمراں پارٹی نے دیگر پارٹیوں کو ہدف تنقید بنانا اور ان کے مٹی پلید کرنا اور ان کے نام ونشان کو مٹانا اور ان کی خامیوں کا اظہار وافشاء تو ٹھیک رہا ؛ لیکن ان کی خوبیوں کو بھی خامیوں میں بدلنا اور کسی بھی پارٹی کو تنقید کے نشانہ بنانے کے لئے جو حربے اور وسیلے حکمراں بر سر اقتدار جماعت اختیار کر رہی ہے ، یہ کسی بھی طرح اخلاقی پیمانہ میں نہیں سماتے ، ہمیشہ سے ہندوستان ایک مذہبی ملک رہا ہے ،سچائی ، صداقت، اہنسا ، بھائی چارہ ، میل میلاپ ،اخلاق واقدار پر یہاں کے باسیوں کی گرفت مضبوط رہی ہے ، وہ اپنے ملک کی ریت ورسم اور یہاں کے اخلاقی پیمانوں کو بداخلاقی کے کیچڑ میں ڈال کر تباہ وبرباد کرنا نہیں چاہتے ، لیکن بر سر اقتدار حکمراں دوسرے پارٹیوں کو خامیوں کو اجاگر ضرور کرتے ، لیکن اس میں حد سے تجاوز کر جانااور میڈیا کے سہارے کسی بھی پارٹی کو اس قدر نشانہ بنانا اور اس کی امیج خراب کر نے کوشش کرنااور حقائق اور سچائیوں اور صداقتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، یہ ہماری ریت ورسم اور ہمارے ملک کے اخلاقی پیمانوں کے ہم آہنگ وہم رنگ نہیں ، اگر اپوزیشن اور مخالف پارٹی کو ہدف تنقید بنانے کاعمل اس سے تجاوز کر کے ملک کی اہانت کے دائرہ میں آتا ہے تو یہ نہایت قبیح عمل شمار ہوتا ہے ، اس ملک کا ہر باسی اپنے اس ملک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے ، وہ کیوں کر ملک کی توہین والے الفاظ برداشت کرسکتا ہے ، ملک کے وزیر اعظم کے دور ہ جنوبی کوریا کے موقع سے اپنے بیانات میں انہوں نے اپنی ایک سالہ دورِ حکمرانی کی تعریف کے پل باندھنے اور مخالف پارٹیوں اور ان کے دور اقتدار ؛ بلکہ ہندوستان کے پچھلے تمام ادوار کو انہوں نے بالکل نیچا اور عمل ، جدوجہد اور ترقی وعروج کے لحاظ سے بالکل کمتر او ر حقیر تر گردانا ہے ، ہمارے ملک کی ایک تاریخ ہے جو بہت قدیم ہے ، یہاں پر جنگ وجدال وحکمرانی کے مختلف ادوار اور نشیب وفراز رہے ہیں ، کتنے سلاطین آئے اور کتنی حکومتیں پنپیں اور انہوں نے اپنے مختلف ادوار میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ،، لیکن صرف اپنی ایک سالہ حکمرانی کی اس قدر قصیدہ خوانی کے پچھلے ہندوستان کی تاریخ کے تمام تھیکے اور پھیکے نظر آئیں یہ بات قرین قیاس اور عقل سے ماوراء نظر آتی ہے، ملک کے وزیر اعظم کے کا یہ ریماک کہ'' ایک سال قبل ہندوستانی ہونے پر عارمحسوس ہوتا تھا'' یہ جملہ جہاں انانیت ، غرور وگھمنڈ کا ترجمان ہے ، حقیقت سے بھی کوسوں ہے ، صرف مبالغہ آرائی اور ملمع سازی پر مبنی ہے، اور ایک طرح سے یہ ملک کی اہانت کے بھی مترادف ہے کہ ملک کے موجودہ وزیر اعظم خود اپنے ملک کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، انہیں اپنی حکمرانی پر اتنا ناز اور فخر ہے ، وہ اپنے جملہ میں پہناں ہزاروں دیگر معانی ومفاہیم سے یکسر اپنی آنکھ موند لئے ہے ، اس جملہ سے گرچہ وہ اپنی حکمرانی کے قصیدے پڑھنا چاہتے ہیں ؛ لیکن اس ملک کی اہانت بھی لازم آتی ہے کہ اپنے دور حکمرانی کی شروعات سے قبل ہندوستان اس قابل نہیں تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کی وہ رہائش بن سکے ، ایسی کیاوجہ تھی کہ ملک کی فضاء ان کو راس نہیں آئی ؟ کیا ملک کے باشندے نیچ اور حقیر تھے ؟ یا یہاں کی تہذیب وتمدن اور رکھ رکھاؤ میں برائی تھی، بجا طور ملک کے وزیر اعظم کے اس ریمارک پر ملک کے 38ہزارسے زائد باسیوں نے ٹوٹیر پروزیر اعظم کے اس ریمارک کی مذمت کی ، بعض لوگوں نے تو ان ریمارکس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مودی خود اپنے ملک کو بدنما اور داغدار بنار ہے ہیں ، ٹویٹر کے ایک صارف نے یہ تحریر کیا کہ '' مودی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں ہندوستان میں پیدا ہونے پر شرم وعار محسوس ہوتا ہے ، جب کہ ہر ہندوستانی کو اپنے ملک کے شہری ہونے پر ہمیشہ ہی سے فخر رہا ہے ''مودی نے سیوول میں پیر کے دن ہندوستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: '' ہم نے ماضی میں کونسے ایسے گناہ کئے تھے کہ ہندوستانی سرزمین پر پیدا ہوئے ، کیا یہ مملکت ہوسکتی ہے ؟ کیا یہاں کوئی حکومت ہے ؟ ہم اس ملک کو خیر آباد کہہ دیں گے(یعنی اپنے دور اقتدار سے قبل ہندوستانیوں کا یہ رجحان تھا)مزید یہ کہا کہ: '' ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہندوستانی عوام اس ملک کو چھوڑدینے کے خواہشمند تھے ، تاجربرادری کہا کرتی تھی کہ ہمیں اس ملک میں کاروبار نہیں کرنا چاہئے، یہ تمام افراد اب اپنے ملک کو واپسی کے خواہاں ہیں''حقیقت یہ ہے کہ ملک کا جو بھی ملک سے باہر کسی بھی ملک میں جاتا ہے اس کے پیش نظر ملک کی ترقی ، نیک نامی ، ملک اور اہل ملک کی معاشی استحکام ومضبوطی اور ترقی یافتہ ممالک میں اپنے روشن اور تابندہ کارناموںسے اپنے ملک کی شہرت اور عزت مقصود بنا کر جاتا ہے ، ایسے ناجانے کتنے ہندوستانیوں نے بیرونِ ملک رہ کر اپنے کارہائے نمایاں سے اپنے ملک کا نام بیرونِ ملک روشن کیا، وہ تو ہر گز اپنے ملک کونہ چھوڑتے ، کیوں کر کوئی شخص اپنی اس فضاء کو جس فضا ء میں اس نے لڑکپن کی آنکھیں لیں، جہاں بچپن کی رنگ برنگی یادیں وابستہ کی ، جہاں اس کے آباء واجداد اور اس کے خونی رشتہ داری کا سلسلہ ہے وہ اس کو چھوڑ سکتا ہے ، ہمارا ملک تو ترقی پذیر ملک ہے ،یہاں دنیا کی عظیم جمہوریت ہے ، یہاں کی مستقل تہذیب ورایات ہیں ، یہاں امن وسکون ہے ، اس سے کیوں کر کوئی فرار اختیار کرسکتا ہے ۔کیوں کر کوئی اس ملک میں رہنے میں عار وشرمندگی محسوس کرسکتاہے ،اجنبی ملک اجنبی ہی ہوتا ہے ،یہاں اس کے اپنے اہل وعیا ل کے علاوہ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔وہ اجنبی ملک میں سب کچھ رکھتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کی کمی محسوس کرتا ہے ؛ صرف ملک کاباشندہ ملک کے باہر جاتا ہے تو ملک کی معیشت اور استحکام اور ملک کی نیک نامی کے لئے ۔آج بھی این آر آئیز کے مسائل اخبارات کی زینت بنتے ہیں ، کسی بھی این آر آئیز سے اس کے کے دل کو ٹٹولیئے کہ وہ کیا وہ اپنے ملک سے دوری پر راضی ہے ، لیکن اس کی مجبوری ہے خواہ ترقی کی خواہش کی شکل میں ہو، یا معاشی استحکام کی شکل میں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک میں اپنے زندگی کے تلخ ایام گذارنے پر مجبور ہے ۔

مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل، MOLANA GAYAS AHNMED RASHAdI

  مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل رفيع الدين حنيف قاسمي، اداره علم وعرفان ، حيدرآباد در نایاب، یگانہ روزگار ، ممتازفعال، مت...