Tuesday 17 November 2015
Tuesday 23 June 2015
بسم اللہ
الرحمن الرحیم
مفتی رفیع الدین
حنیف قاسمی، وادی مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
رمضان کی مخصوص عبادتوں میں
سب سے اہم اور جامع عبادت ''روزہ '' ہے ، وقت سحر کے ختم سے لے کر غروب
آفتاب تک
کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام روزہ ہے ، رمضان المبارک کی پہچان ہی ''روزہ''
کی عبادت سے ہے ، اللہ عزو جل نے قرآن کریم میں اس مہینہ کا تعارف نزول قرآن کے مہینہ
سے فرمانے کے بعد فرمایا کہ جو شخص اس ماہ کو پائے وہ روزہ رکھے '' فمن شھد منکم
الشھر فلیصمہ''(البقرة:١٨٥)روزہ کو دوسری عبادتوں پر فضیلت خصوصی طور پر اس لئے
حاصل ہے کہ دیگر عبادات میں ریاء کاری ، دکھاوا ممکن ہے اور روزہ تو محض امور
ثلاثہ سے نیت کے ساتھ رکے رہنے کا نام ہے ، اس میں کوئی عمل نہیں ہوتا کہ اس کا
اظہار وافشاء کیا جائے۔اس کو لوگوںکو بتایا اور دکھلایا جائے۔
روزہ کا کوئی مثل نہیںہے
احادیث مبارکہ میں روزہ کی
اہمیت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ اس کا کوئی مثل اور بدل نہیں ہے ، یہ
بالکل بے مثال اوربے بدل اور نہایت فضیلت والی عبادت ہے ۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک
مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی
ایسے عمل کا حکم دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کر لو کیونکہ روزے جیسا کوئی عمل نہیں ہے۔(مسند
احمد: حدیث أبی امامة، حدیث:٢٢٢٢١)اور اگر دن کے وقت ان کے گھر سے دھواں اٹھتا
ہوا دکھائی دیتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے یہاں کوئی مہمان آیا ہے۔یہاں ''فنہ
لا مثل لہ'' کے الفاظ استعمال ہوئے ہیںاور بعض جگہوں پر ''فنہ لا بدل لہ'' کے
الفاظ آئے ہیں ۔
روزہ کا بدلہ خود باری
تعالی عنایت کرتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ روزہ میرے
لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، میری وجہ سے وہ اپنی خواہش کو اور کھانے اور
پینے کو چھوڑتا ہے، اور روزہ ڈھال ہے اور روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی
جس وقت روزہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی جس وقت اپنے رب سے ملاقات کرے گا، اور
روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔
اور ایک روایت میں ہے :روزہ
دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، جب افطار کرتا ہے۔ تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب
سے ملے گا تو روزہ کے سبب سے خوش ہوگا۔(بخاری: باب ھل یقول نی صائم ذا شتم، حدیث:٥٠٨١)
ایک دوسری روایت میں ہے: روزہ
دار میری خاطر اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے لہذا اس کا روزہ میری وجہ سے ہوا اس لئے
بدلہ بھی میں خود ہی دوں گا ہر نیکی دس گنا بڑھا دی جاتی ہے اور سات سو گنا تک چلی
جاتی ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
''روزہ کا بدلہ میں ہی دوں
گا''اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ دیگر اعمال کی طرح روزہ میں ریاء کاری نہیں ہوسکتی،
اس لئے یہ عمل خالص میرے لئے ہو ا۔اس کا ایک مطلب علامہ حجر نے یہ بیان کیا ہے کہ:
یعنی روزے کے ثواب کی مقدار اور اس کے نیکیوں کے اضافہ کو میں ہی جانتا ہو، دیگر
عبادات کے ثوابات بعض لوگوں کو معلوم ہیں۔علامہ قرطبی فرماتے ہیں: اعمال کے ثواب کی
مقدار کا لوگو ں کو علم ہے اور یہ ثواب دس گناہ سے سات سو گناہ تک بڑھایا جاتاہے
سوائے روزے کے کہ اس کا ثواب بغیر تعیین مقدار کے اللہ عزوجل عنایت کریں گے۔اسی کو
اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں فرمایا: ''نمایوفی الصابرون أجرہم بغیر حساب''(الزمر:١٠)(فتح
الباری)علامہ مناوی فیض القدیر میں فرماتے ہیں: ''میں ہی اس کا بدلہ دوں گا) اسے
بدلہ اور ثواب کی کثرت کو بتلانا ہے کہ چونکہ جب سخی اور داتا بلا کسی واسطی کے
خود ہی دے تو اس عطا اور داد ودہش کی سرعت اور عظمت کا تقاضا کرتا ہے ۔ اس کے
علاوہ روزہ یہ اللہ عزوجل کی صفت سے تعلق رکھتا ہے ، جس میں کھانا ، پینا اور ترک
شہوات ہے ۔
روزہ کے عمل سے حقوق
العباد ادا نہیں کئے جائیںگے:
مطلب یہ ہے کہ اگر بندے نے
حقوق العباد کو ضائع کئے ہوں، چوری کی ، زنا کیا، کسی پر ظلم وزیادتی ، گالی
گلوچ،غیبت ، چغلی، حسدوغیرہ کیا تو اس کے اعمال سے بندوں کے حقوق ادا کئے جائیںسوائے
روزہ کے وہ بندے کے نامہ اعمال میں خالص اس کے لئے رہے گا، اس سے حقوق العباد کی
ادائیگی نہ ہوگی ۔بلکہ روزہ کا عمل اس کا ثواب اس کو پورا پورا دیا جائے اور یہ اس
کے دخول جنت کا سبب ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارشاد باری تعالی ہے
روزہ کے علاوہ ہر عمل کا کفارہ ہے روزہ خاص میرے لیے ہیں اور میں خود اس کا بدلہ
دوں گا، روزہ دار کے منہ کی بھبک اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے(بخاری:
باب لکل عمل کفارة،حدیث:٧١٠٠)
روزے داروں کے لئے مخصوص
دروازہ:
اللہ عزوجل نے دخولِ جنت
کے لئے روزہ داریوں کے لئے مخصوص دروازہ بنوایا ہے ، جس سے صرف روزہ دار ہی داخل
ہوسکے گے ، روزے داروں کے لئے روزِ قیامت یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہوگا۔حضرت سہل
بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان رکھا گیا اور اس
دروازے سے صرف روزہ داروں کا داخلہ ہی ہو سکے گا۔(بخاری: باب صفة أبواب الجنة،حدیث:٣٠٨٤)آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت
کے دن اس دروازے سے روزے دار ہی داخل ہوں گے کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا، کہا جائے گا
کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو
سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا اور اس میں کوئی داخل
نہ ہوگا۔(بخاری: باب الریان للصائمین، حدیث:١٧٩٧) ترمذی کی روایت میں ہے :'' ومن
دخلہ لم یظمأ أبدا''(ترمذی: فضل الصوم، حدیث: ٧٦٥)جو اس میں داخل ہوگا وہ کبھی پیاسا
نہ ہوگا۔
روزہ روزِ قیامت سفارش کرے
گا:
روزہ یہ روزِ قیامت بندہ کی
سفارش کرے اور اس کی سفارش قبول کی جائے اور وہ جنت میں داخل کیا جائے گا۔
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں
گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے
روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ میں نے
رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چنانچہ ان
دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔(مسنداحمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، حدیث:٦٦٢٦)
روزہ دار کی دعا رد نہیں کی
جاتی:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی
عادل حکمران، روزہ دار تا آنکہ روزہ کھول لے اور مظلوم کی بددعا وہ بادلوں پر سوار
ہو کر جاتی ہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالی
فرماتے ہیں مجھے اپنی عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا خواہ کچھ دیر بعد ہی
کروں۔(سنن ابن ماجة: باب فی الصائم لا ترد دعوتہ، حدیث:١٧٥٢)
روزہ دارمنہ کی خوشبو مشک
سے بہتر:
روزہ دار کی ایک خصوصیت
اور ان کا ایک امتیازیہ ہے کہ روزہ دار کے روزہ کی حالت میں معدہ کے خالی ہونے سے
جو بو اس کے منہ سے آئیں گے وہ عند اللہ مشک کی خوشبو سے بہتر شمار کی گئی ہے ۔
اس حوالے سے نبی کریم کا
ارشاد ہے کہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ ارشادباری تعالی ہے روزہ میرے
لیے ہے اور اس کا بدلہ بھی میں خود ہی دوں گا روزہ دار کے منہ کی بھبک اللہ کے نزدیک
مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے۔(بخاری: باب ما یذکر فی المسک،حدیث:٥٥٨٣)
روزہ جہنم سے ڈھال ہے :
روزہ کو جہنم سے بچاؤ کا
ذریعہ قرار دیا گیا ہے ، یہ جس طرح انسان جنگ اور قتال کے موقع سے ڈھال سے دشمن کے
وار سے بچاؤ کرتا ہے ، اسی طرح روزہ یہ انسان کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال ہے جس سے
انسان جہنم سے اپنا بچاؤ کرتا ہے اور وہ روزہ خاص میرے لئے ہے لہذا اس کا بدلہ بھی
میں ہی دوں گا۔(مسند احمد: مسند أبی ہریرة، حدیث:٩٣٦٢) علامہ مناوی اس کی تشریح میں
فرماتے ہیں ، روزہ دنیا میں شہوات کو توڑنے اور اعضاء وجوارح کی حفاظت کی وجہ سے
گناہوں اور معاصی سے بچاؤ اور آخرت میں دوزخ چھٹکارے کی وجہ ہے ۔(فیض القدیر)
ان احادیث کی روشنی میں
روزہ کی فضیلت اوراس کے مقام کا علم ہوتا ہے کہ روزہ رضا رب کا ذریعہ اور خوشنودی
رب کے حصول کا وسیلہ ہے ۔
Saturday 13 June 2015
ماہِ رمضان ـ فضائل وبرکات
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی،
وادی مصطفی ، شاہین نگر، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
رمضان رمض(بمعنی جلنا) سے
ماخوذ ہے ، چونکہ یہ مہینہ بھی گناہوں کو جلادیتا ہے ، اس لئے اس کو ماہِ رمضان
کہتے ہیں، یا رمضان رمض بمعنی(زمین کی گرمی سے پاؤں کا جلنا) سے ماخوذ ہے ،چونکہ
ماہ رمضان بھی تکلیف نفس اور جلن کا سبب ہوتا ہے ، اس لئے اس کو رمضان کہتے ہیں۔
رمضان المبارک کی آمد آمد
ہے ، یہ مہینہ ایک مسلمان کے لئے نہایت برکت وفضیلت کا حامل مہینہ ہے ، اس کی بے
شمار خیر وخوبیاں اور بے حساب فضائل ومناقب ہیں، یہ مہینہ ایک مومن کے لئے گناہوں
کی بخشش ومغفرت اور نیکیوں اور بھلائیوں کے حصول اور رضائِ رب کے جویا اور متلاشی
کے لئے گویا ایک سیزن اور اللہ کو راضی کرنے اور منوانے اور اپنے گناہوں کے
دھلوانے اور اس کے بخشوانے کا بہترین موقع ہے۔اس ماہ میں اللہ کی رحمت بارش کی طرح
برستی ہے ، مغفرت کا پروانہ ملتا ہے اور جہنم کی آگ سے آزادی ملتی ہے ، خیرکے
طلبگار آگے بڑھتے ہیں ،شر کے متلاشی پیچھے ہٹائے جاتے ہیں، ہر عبادت کا ثواب
بڑھادیا جاتا ہے ، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب سترفرضوں کے مقدار
میں عطا کیا جاتا ہے ۔مومنوں کے لئے جنت سجائی جاتی ہے۔
رمضان کی فضیلت:
حضرت ابو مسعود رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیںمیں نے رسول اکرم ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ
رمضان المبارک کی حقیقت کیا ہے تو میری یہ امت تمنا کرے گی کہ سارا سال رمضان
ہوجائے پھر (قبیلہ خزاعہ) کے ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! (رمضان کے
بارے میں ) ہمیں کچھ بتلائیے، آپ نے ارشاد فرمایا: رمضان المبارک کے لئے جنت شروع
سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے ، جب رمضان شریف کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش(الٰہی)
کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے ، جس سے جنت کے درختوں کے پتے ہلتے ( اور بجنے ) لگتے
ہیں اور حور عین عرض کرتی ہیں ، اے ہمار ے رب ! اس مبارک مہینے میں ہمارے لئے اپنے
بندوں میں سے کجھ شوہر مقرر کردیجئے جن سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریںاور وہ ہم سے
اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔
اس کے بعد آپ ۖ نے فرمایا: کوئی بندہ
ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کا روزہ رکھے مگر یہ بات ہے کہ اس کی شادی ایسی حور سے
کردی جاتی ہے جو ایک ہی موتی سے بنے ہوئے خیمے میں ہوتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ
نے کلام پاک میں فرمایا ہے:''حور مقصورات فی الخیام''(الرحمن:٧٢) (خیموں میں رکی
رہنے والی حوریں) اور ان عورتوں میں سے ہر عورت کے جسم پر ستر قسم کے لباس ہوں گے
، جن میں سے ہر لباس کا رنگ دوسرے لباس سے مختلف ہوگا اور انہیں ستر قسم کی خوشبو
دی جائے گی ، جن میں سے ہر خوشبو کا انداز دوسرے سے مختلف ہوگا، اور ان میں سے ہر
عورت کی (خدمت اور) ضرورت کے لئے ستر ہزار نوکرانیاں اور ستر ہزار خادم ہوں گے ،
ہر خادم کے ساتھ سونے کا ایک بڑا پیالہ ہوگا جس میں کئی قسم کا کھاناہوگا( اور وہ
کھانا اس قدر لذیذ ہوگا کہ) اس کے آخری لقمے کی لذت پہلے لقمے سے کہیں زیاد ہ ہوگی
اور ان میں سے ہر عورت کے لئے سرخ یاقوت کے تخت ہوں گے ، ہر تخت پر ستر بستر ہوں
گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے اور ہر بستر پر ستر گدے ہوںگے اور اس کے خاوند
کو بھی اسی طرح سب کچھ دیا جائے گا (اوروہ) موتیوں سے جڑے ہوئے سرخ یاقوت کے ایک
تخت پر بیٹھا ہوگا ، اس کے ہاتھوں میںوہ کنگن ہوں گے ، یہ رمضان المباک کے ہر روزہ
کا بدلہ ہے ( خواہ) جو (شخص) بھی روزہ رکھے ( اور روزہ دارنے) روزہ کے علاوہ جو
نیکیاں (اعمال صالحہ) کی ہیں، ان کا اجر وثواب اس کے علاوہ ہے ،مذکورہ ثواب صرف
روزہ رکھنے کا ہے (مجمع الزوائد: باب فی شہور البرکة ، وفضل شھر رمضان، حدیث:
٤٧٧٣،علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کو اس کو طبرانی نے کبیر میں روایت کیاہے اس میں ہیاج
بن بسطام ضعیف ہے ، علامہ ابن حجر مطالب العالیة میں فرماتے ہیں: اس کو ابن خزیمہ
نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، پھر کہا ہے کہ اگر یہ خبر صحیح ہے ، لیکن جریر بن
ایوب کی وجہ سے یہ کھٹکتی ہے ، لیکن چونکہ یہ رغائب اور فضائل سے تعلق رکھتی ہے ،
اس لئے اس سے تساہل برتا ہے)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو رمضان میں پانچ چیزیں ایسی دی گئی
ہیں جو اس سے پہلے کسی امت کو نہیں دی گئیں(١) روزہ دار کے منہ کی بواللہ کے نزدیک
مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے(٢) افطار تک فرشتے ان کے لئے استغفار کرتے رہتے
ہیں (٣)اللہ تعالی روزانہ جنت کو مزین فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے
نیک بندے اپنے اوپر سے محنت و تکلیف کو اتار پھینکیں گے اور تیرے پاس آئیں گے(٤)
اس مہینے میں سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ لہذا غیر رمضان میں انہیں جو آزادی
حاصل ہوتی ہے وہ اس میہنے میں نہیں ہوتی (٥) ماہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں
کی بخشش کردی جاتی ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا
یہی شب قدرہے ؟ فرمایا نہیں البتہ بات یہ ہے کہ جب مزدور اپنی مزدوری پوری کرلے تو
اسے اس کی تنخواہ پوری پوری دے دی جاتی ہے۔(مسند احمد: مسند أبی ہریرة، حدیث:
٧٩٠٤، علامہ منذری فرماتے ہیں ، اس کو احمد، بزار، بیہقی، ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب
الثواب میں نقل کیا ہے ، پھر ایک دوسری سند سے اس روایت کونقل کرکے فرماتے ہیں ،
یہ پہلی والی روایت سے زیادہ اصلح ہے )
حضرت ابو سعیدخدری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کریم ۖ نے ارشاد فرمایا: جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان
کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ بھی رمضان کی
آخری رات آنے تک بند نہیں کیا جاتا اورکوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان
شریف کی راتوں میں سے کسی رات میںنماز پڑھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہر
سجدے کے بدلے میں ڈھائی ہزار نیکیاںلکھے گا اور اس کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا
ایک مکان بنادے گا، جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر سونے کا ایک
محل ہوگا جو سرخ یاقوت سے آراستہ ہوگا ، پھر جب رزوہ دار رمضان المبارک کے پہلے دن
کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گذشتہ سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور روزہ دار کے
لئے روزانہ صبح کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ستر ہزار فرشتے اللہ تعالیٰ سے
مغفرت چاہتے ہیں اور رمضان شریف کی رات یا دن میں ( اللہ کے حضور میں) کوئی سجدہ
کرتا ہے تو ہر سجدہ کے عوض اس کو (جنت میں) ایک ایسا درخت ملتا ہے جس کے سایہ میں
سوار پانچ سو برس تک چل سکتا ہے ۔
رمضان مغفرت کا مہینہ:
رمضان بخشش اور مغفرت کا
مہینہ، گنہ گاروں اور پاپیوں کے گناہوں کے دھلوانے اور خدا کے حضور اپنی انابت
وخشوع وخضوع اور اپنی عبادات اور لقاء رب کے شوق کو دکھلا کر اپنے آپ کو ذنوب
وعصیان سے پاک وصاف کرنے کا مہینہ ہے ، اس لئے حضور اکرم ۖ نے اس شخص کے حق میں بددعا فرمائی ہے جو رمضان کا مہینہ پائے ،
پھر اپنی مغفرت کا سامان نہ کرسکے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ منبر پرچڑھے،
تین مرتبہ آمین کہا، پھر فرمایا: تم جانتے ہو کہ میں نے آمین کیوں کہا: تو حضرات
صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: میرے پاس حضرت
جبرئیل تشریف لائے تھے، انہوں نے مجھے بتلایا کہ اے محمد (ۖ) جس کے پاس آپ کا ذکر ہو
اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے اور اس کو اللہ عزوجل اپنے
سے دور کردے، انہوں نے آمین کہنے کو کہا تو میںنے آمین کہا، جو شخص اپنے والدین یا
ان میں سے کسی ایک کو پائے اور ان کی اطاعت نہ کرسے تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے
اوراللہ عزوجل اس کو اپنی رحمت سے دور کردے تو میں نے کہا: آمین، پھر فرمایا:جو
شخص رمضان کا مہینہ پائے اور اس کی مغفرت وبخشش نہ ہوسکے تو وہ جہنم میں جائے اور
اللہ عزوجل اس کو اپنے رحمت سے دور کردے تو میں نے کہا: آمین(علامہ ہیثمی فرماتے
ہیں : اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے ، اور یہ ضعیف ہے اور اپنے دیگر شواہد کی
وجہ سے صحیح ہوجاتی ہے )۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
مسلمان پر ماہ رمضان سے بہتر کوئی مہینہ سایہ فگن نہیں ہوتا اور منافقین پر رمضان
سے زیادہ سخت کوئی مہینہ نہیں آتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اس مہینے میں
عبادت کے لئے طاقت مہیا کرتے ہیں اور منافقین لوگوں کی غفلتوں اور عیوب کو تلاش
کرتے ہیں۔(مسند احمد :مسند أبی ہریرة، حدیث:٨٣٦٨)
رمضان جہنم سے آزادی کا
مہینہ:
اللہ عزوجل کے یہاں رمضان
کے ہر دن لوگ جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان مرد وعورت کی ایک دعا قبول
ہوتی ہے ، یعنی یہ دعا کی قبولت اور نماز ، روزوں ، تلاوت قرآن ، تراویح اور دیگر
اعمالِ صالحہ سے مسلمان کے اپنی زندگی سے معمور کر کے اپنے آپ کو جہنم سے آزادی
دلانے کا مہینہ ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کی پہلی
رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے
دورازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر جنت
کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے
والا پکارتا ہے اے خیر کے طلبگار آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار ٹھہر جا اور اللہ کی
طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے(ترمذی:باب
فضل شھر رمضان، حدیث:٦٨٢)اور ایک روایت میں ہے : رمضان کے ہر غروب کے وقت ایک
فرشتہ آواز لگاتا ہے ، اے خیر کے طلبہ گار آگے بڑھ،ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ اس
کی دعا قبول کی جائے ، ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اس کو عنایت کیا جائے ، ہے کوئی
مغفرت چاہنے والا کہ اس کی بخشش کی جائے ، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ
قبول کی جائے ، اللہ عزوجل ہر رات افطار کے وقت رمضان میں اپنے کچھ بندے اور
بندیوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہیں (فضائل شھر رمضان لابن شاہین:٣٦، مکتبة
المینار، اردن)۔
رمضان میں نیکیوں کا ثواب
دوچند کردیا جاتا ہے :
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں
کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمارے سامنے (جمعہ کا
یا بطور تذکیر و نصیحت) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! باعظمت مہینہ تمہارے اوپر
سایہ فگن ہو رہا ہے، یہ بڑا ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں وہ
رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں
اور اس کی راتوں قیام (عبادت خداوندی) جاگنا نفل قرار دیا ہے جو اس ماہ مبارک میں
نیکی (یعنی نفل) کے طریقے اور عمل کے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ
اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا ہو
(یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے
ثواب کے برابر ہوتا ہے)اور جس شخص نے ماہ رمضان میں(بدنی یا مالی) فرض ادا کی تو
وہ اس شخص کی مانند ہو گا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ستر فرض ادا کئے ہوں
(یعنی رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی
ادائیگی کے ثواب کے برابر ہوتا ہے )اور ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے (کہ روزہ دار
کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے رکا رہتا ہے)وہ صبر جس کا ثواب بہشت ہے ماہ رمضان
غم خواری کا مہینہ ہے لہذا اس ماہ میں محتاج و فقرا کی خبر گیری کرنی چاہئے اور یہ
وہ مہینہ ہے جس میں (دولت مند اور مفلس ہر طرح )مومن کا (ظاہر اور معنوی) رزق
زیادہ کیا جاتا ہے جو شخص رمضان میں کسی روزہ دار کو (اپنی حلال کمائی سے) افطار
کرائے تو اس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ کی آگ سے
اس کی حفاظت کا سبب ہو گا اور اس کو روزہ دار کے ثواب کی مانند ثواب ملے گا بغیر
اس کے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سب
تو ایسے نہیں ہیں جو روزہ دار کی افطاری کے بقدر انتظام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ثواب اللہ تعالی اس شخص کو بھی عنایت
فرماتا ہے جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی یا کھجور اور یا ایک گھونٹ پانی ہی کے
ذریعے افطار کرا دے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے تو اللہ تعالی
اسے میرے حوض (یعنی حوض کوثر) سے اس طرح سیراب کرے گا کہ وہ(اس کے بعد) پیاسا نہیں
ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو جائے اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کا
ابتدائی حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ بخشش ہے یعنی وہ مغفرت کا زمانہ ہے اور اس کے
آخری حصے میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے (مگر تینوں چیزیں مومنین کے لیے ہی مخصوص ہیں
کافروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے)اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و لونڈی کا
بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور اسے آگ سے نجات دے گا۔(
الترغیب: کتاب الصوم ، الترغیب فی الصوم، حدیث:١٤٨٣،علامہ منذری فرماتے ہیں: اس کو
ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، پھر فرمایا یہ خبر صحیح ہے )
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے
کہ اس رمضان کے مہینہ کی ہم جس قدر ممکن ہوسکے قدر کریں ، اس کے فضائل اور برکات
کے استحضار اور یاددہانی کا مقصود بھی یہی ہے کہ اس ماہِ مبارک کے سایہ فگن ہونے
اور اس کی آمد آمد سے پہلی ہی ہم اسکے خیر وبرکات اور اس کے فضائل ومناقب کو جان
کر اس کا اہتمام کرنے ولے بنیں اور اس کی تمام عبادت میں دلجمعی اور دلچسپی
کامظاہرہ کر کے رضاء رب، لقاء رب ، جنت اور اس س کی نعمتوں اور اس کے آسائش وآرام
کے مستحق بنیں۔لوگوں کو افطار کروائیں، یکسو ہو کر عبادات میں لگ جائیں، دعاؤں کا
خوب اہتمام کریں ، یہ قبولت دعا کے موقع ہے ، خیر اور بھلائی کے کاموں میں خوب خرچ
کریں، تلاوت قرآن کریم سے اپنے رات ودن کو معمور کریں، نماز پنج گانہ باجماعت ادا
کریں۔ذکر وفکر میں اپنے اوقات صرف کریں استغفار کی کثرت کریں، دعاؤں کے ذریعہ جنت
کا سوال اور جہنم سے پناہ چاہیں۔
آج امت مسلمہ کا المیہ یہ
ہے کہ اس نے رمضان کو بجائے اس کے کہ وہ نیکوں کے اکٹھا کرنے کا سیزن ہوتا ہے ، ہم
نے اسے کمائی کا سیزن بنالیا ہے، اس لئے تجار کو اور دیگر پیشوں سے وابستہ حضرات
کو دن بھر اپنے کاموں سے فارغ ہو کر یکسوئی کے ساتھ عبادات میں لگ جانا چاہئے ، اس
کے ساتھ ساتھ مسلمان تجار اپنے ماتحت پر کام کے بوجھ کو ہلکا کریں، ان کو بھی نماز
اور روزوں کا موقع عنایت کریں ، ان کی نیکیوں کے وہ بھی حصہ دار ہوں گے ،رمضان کو
گراں فروشی کا مہینہ نہ بنائیں مصنوعی قلت ، ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ مسلمان بھائیوں
کا خون نہ چوسیں۔
Saturday 30 May 2015
اس رات کے
محروم لوگ
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا
حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ
عزوجل کے بے پایاںاحسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت
کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے
کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے
ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں،انہیں
دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی
نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں''لیلة المبارکہ''لیلة الصک'' ''لیلة القدر''۔ (تفسیرالقرطبی:١٢٧١٦)اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت
ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر٣میں مذکور''لیلة مبارکہ''کی تفسیرحضرت عکرمہ
نے''لیلة البراة''(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی١٧٣٤)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان
کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ''حمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،ِنَّا
أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ
کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ '' (الدخان:١ـ٤)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم
نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم
آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات
سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلة البراء ة کہتے ہیں،(عکرمہ بروایت
جریر)
اس کو لیلة البراء ة اس لئے کہتے ہیں ، اس
کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براة وخلاصی کے
فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباس سے روایت کرتے ہیں''اللہ
عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے
متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے
متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)داد ودہش اور نوازش کی رات:یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا
پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی
ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو
دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال
کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی
کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات
مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی
اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے
طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ''آگاہ ہوجاؤ''کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں
اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروںہے کوئی مبتلائے مصیبت
کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع
ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجائ،فی لیلة النصف من شعبان،حدیث:١٣٨٨)اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ''ہے کوئی طلب
گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی
کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:١٨٨٦)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں
رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی
عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی
اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں
کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔عام معافی اورمغفرت کی رات
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا
ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی
اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ
واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان
کرناچاہیے حضوراکرم ۖنے
اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی
مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ۖنے فرمایا:''پندرہویں شعبان کو
اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں
لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان:حدیث٧٣٩)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے
ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔اس رات کے محروم لوگعمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم
ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص
کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے
پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے
مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے
موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے
داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے
مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں
بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیںان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (١)مشرک (٢)کینہ
پرور(٣)چغل خور(٤)زانی (٥)والدین کا نافرمان (٦)سودکھانے والا(٧) شرابی (٨)کا ناحق
قتل کرنے والا (٩)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔(١٠)اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے
والا(١١) قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،حدیث٣٥٥،فضائل
الاوقات بیہقی،حدیث ٢٧)١۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی
کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل
کا ارشاد گرامی ہے ''اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم'' (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:١٣)اور
ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :''بیشک اللہ
تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے
سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ
تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا''(النسائ:٤٨)حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات
بتاتے ہوئے فرمایاہے:'' اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں
جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ
تفصیلات یہ ہیں:علم میں شریک ٹھہرانا:-یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد
رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت
کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے
پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان
کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ،
کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا
مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا
کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار
کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ''(معارف القرآن)(١)
کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ
نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا
ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں
کا مجموعہ ہے :امام غزالی
نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں: حسد، شماتت،
سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے
ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ
کرنا(کیمیائے سعادت: ٣٣٣)کینہ پرور کی بخشش نہیںہوتی اس پر یہ روایت
دلالت کرتی ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر
ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس
بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور
فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو
تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں(مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:٢٥٦٥)٣۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص
کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید
بتلایا گیا ہے'' الغیبة أشد من الزنا'' غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع
الزوائد: باب ما جاء فی الغیبة والنمیمة،حدیث:١٣١٢٨)اور ایک روایت میں فرمایا:''لا
یدخل الجنة قتّات'' (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من
النمیمة، حدیث:٢٠٥٦)٤۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ
زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں
سخت وعیدیں آئی ہیں، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور
میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی
کریم ۖ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں
سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام
سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی
اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں۔
٥۔والدین کا نافرمان:والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا
گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے
کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب
خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں
فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے
وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں
ہوں گے ایک تو نافرمانی کرنے والا شخص یعنی
والدین کی نافرمانی کرنے والا شخص اور
دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند
عبد اللہ بن عمر،حدیث:٦١٨٠)٦۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں
آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں
شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان
پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں
ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے
باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے
بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجة، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:٢٢٧٣)٧۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں
کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب
اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی
جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیںہوتی، اگر وہ
اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث٣٦٦٧)
٨۔قتل ناحق:بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا
، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے
بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو
قرآن کریم میںیوں بیان کیا گیا:'' اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس
کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں
رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس
کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ''(النسائ:٩٣)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ
جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں
انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی
رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے
سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔٩۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات
زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی
اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے
محروم لوگوں میں شامل ہیں، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ''جو تاجر ذخیرہ
اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ''(مسلم: ، حدیث:١٦٠٥)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر
بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ
فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی
اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجة:حدیث:٢١٥٥)١٠۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم
لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو
سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان
کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ۖ
نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا
،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:٦٣)۔
١١۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے
لٹکانے والا:مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ،
پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمۖ
کا ارشاد گرامی ہے :'' ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے
جانے والا ہے ''(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:٥٧١٣)
آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا
وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں
مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس
رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔
ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا
حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ
عزوجل کے بے پایاںاحسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت
کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے
کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے
ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں،انہیں
دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی
نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں''لیلة المبارکہ''لیلة الصک'' ''لیلة القدر''۔ (تفسیرالقرطبی:١٢٧١٦)
اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت
ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر٣میں مذکور''لیلة مبارکہ''کی تفسیرحضرت عکرمہ
نے''لیلة البراة''(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی١٧٣٤)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان
کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ''حمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،ِنَّا
أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ
کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ '' (الدخان:١ـ٤)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم
نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم
آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات
سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلة البراء ة کہتے ہیں،(عکرمہ بروایت
جریر)
اس کو لیلة البراء ة اس لئے کہتے ہیں ، اس
کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براة وخلاصی کے
فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباس سے روایت کرتے ہیں''اللہ
عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے
متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے
متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
داد ودہش اور نوازش کی رات:
یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا
پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی
ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو
دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال
کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔
لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی
کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات
مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی
اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے
طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ''آگاہ ہوجاؤ''کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں
اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروںہے کوئی مبتلائے مصیبت
کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع
ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجائ،فی لیلة النصف من شعبان،حدیث:١٣٨٨)
اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ''ہے کوئی طلب
گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی
کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:١٨٨٦)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں
رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی
عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی
اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں
کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔
عام معافی اورمغفرت کی رات
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا
ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی
اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ
واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان
کرناچاہیے حضوراکرم ۖنے
اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی
مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ۖنے فرمایا:''پندرہویں شعبان کو
اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں
لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان:حدیث٧٣٩)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے
ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔
اس رات کے محروم لوگ
عمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم
ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص
کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے
پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے
مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے
موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟
یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے
داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے
مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں
بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیںان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (١)مشرک (٢)کینہ
پرور(٣)چغل خور(٤)زانی (٥)والدین کا نافرمان (٦)سودکھانے والا(٧) شرابی (٨)کا ناحق
قتل کرنے والا (٩)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔(١٠)اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے
والا(١١) قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،حدیث٣٥٥،فضائل
الاوقات بیہقی،حدیث ٢٧)
١۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی
کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل
کا ارشاد گرامی ہے ''اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم'' (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:١٣)اور
ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :''بیشک اللہ
تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے
سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ
تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا''(النسائ:٤٨)
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات
بتاتے ہوئے فرمایاہے:
'' اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں
جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ
تفصیلات یہ ہیں:
علم میں شریک ٹھہرانا:-
یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد
رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت
کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے
پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔
اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان
کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔
عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ،
کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا
مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا
کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار
کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ''(معارف القرآن)
(١)
کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ
نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا
ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں
کا مجموعہ ہے :
امام غزالی
نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں: حسد، شماتت،
سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے
ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ
کرنا(کیمیائے سعادت: ٣٣٣)
کینہ پرور کی بخشش نہیںہوتی اس پر یہ روایت
دلالت کرتی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر
ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس
بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور
فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو
تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں(مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:٢٥٦٥)
٣۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص
کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔
ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید
بتلایا گیا ہے'' الغیبة أشد من الزنا'' غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع
الزوائد: باب ما جاء فی الغیبة والنمیمة،حدیث:١٣١٢٨)اور ایک روایت میں فرمایا:''لا
یدخل الجنة قتّات'' (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من
النمیمة، حدیث:٢٠٥٦)
٤۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ
زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں
سخت وعیدیں آئی ہیں، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور
میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی
کریم ۖ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں
سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام
سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی
اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں۔
٥۔والدین کا نافرمان:
والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا
گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے
کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب
خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں
فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے
وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں
ہوں گے ایک تو نافرمانی کرنے والا شخص یعنی
والدین کی نافرمانی کرنے والا شخص اور
دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند
عبد اللہ بن عمر،حدیث:٦١٨٠)
٦۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں
آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں
شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان
پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں
ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے
باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے
بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجة، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:٢٢٧٣)
٧۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں
کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب
اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی
جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیںہوتی، اگر وہ
اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث٣٦٦٧)
٨۔قتل ناحق:
بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا
، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے
بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو
قرآن کریم میںیوں بیان کیا گیا:'' اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس
کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں
رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس
کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ''(النسائ:٩٣)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ
جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں
انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی
رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے
سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔
٩۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات
زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی
اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے
محروم لوگوں میں شامل ہیں، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ''جو تاجر ذخیرہ
اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ''(مسلم: ، حدیث:١٦٠٥)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر
بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ
فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی
اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجة:حدیث:٢١٥٥)
١٠۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم
لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو
سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان
کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ۖ
نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا
،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:٦٣)۔
١١۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے
لٹکانے والا:
مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ،
پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمۖ
کا ارشاد گرامی ہے :'' ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے
جانے والا ہے ''(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:٥٧١٣)
آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا
وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں
مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس
رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔
اس رات کے محروم لوگ
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ عزوجل کے بے پایاںاحسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں،انہیں دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں''لیلة المبارکہ''لیلة الصک'' ''لیلة القدر''۔ (تفسیرالقرطبی:١٢٧١٦)
اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر٣میں مذکور''لیلة مبارکہ''کی تفسیرحضرت عکرمہ نے''لیلة البراة''(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی١٧٣٤)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ''حمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،ِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ '' (الدخان:١ـ٤)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلة البراء ة کہتے ہیں،(عکرمہ بروایت جریر)
اس کو لیلة البراء ة اس لئے کہتے ہیں ، اس کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براة وخلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباس سے روایت کرتے ہیں''اللہ عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
داد ودہش اور نوازش کی رات:
یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔
لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ''آگاہ ہوجاؤ''کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروںہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجائ،فی لیلة النصف من شعبان،حدیث:١٣٨٨)
اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ''ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:١٨٨٦)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔
عام معافی اورمغفرت کی رات
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان کرناچاہیے حضوراکرم ۖنے اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ۖنے فرمایا:''پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان:حدیث٧٣٩)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔
اس رات کے محروم لوگ
عمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟
یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیںان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (١)مشرک (٢)کینہ پرور(٣)چغل خور(٤)زانی (٥)والدین کا نافرمان (٦)سودکھانے والا(٧) شرابی (٨)کا ناحق قتل کرنے والا (٩)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔(١٠)اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے والا(١١) قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،حدیث٣٥٥،فضائل الاوقات بیہقی،حدیث ٢٧)
١۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے ''اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم'' (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:١٣)اور ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :''بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا''(النسائ:٤٨)
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایاہے:
'' اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ تفصیلات یہ ہیں:
علم میں شریک ٹھہرانا:-
یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔
اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔
عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ''(معارف القرآن)
(١) کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں کا مجموعہ ہے :
امام غزالی نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں: حسد، شماتت، سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ کرنا(کیمیائے سعادت: ٣٣٣)
کینہ پرور کی بخشش نہیںہوتی اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں(مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:٢٥٦٥)
٣۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔
ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید بتلایا گیا ہے'' الغیبة أشد من الزنا'' غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع الزوائد: باب ما جاء فی الغیبة والنمیمة،حدیث:١٣١٢٨)اور ایک روایت میں فرمایا:''لا یدخل الجنة قتّات'' (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من النمیمة، حدیث:٢٠٥٦)
٤۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی کریم ۖ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں۔
٥۔والدین کا نافرمان:
والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے ایک تو نافرمانی کرنے والا شخص یعنی والدین کی نافرمانی کرنے والا شخص اور دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند عبد اللہ بن عمر،حدیث:٦١٨٠)
٦۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجة، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:٢٢٧٣)
٧۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیںہوتی، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث٣٦٦٧)
٨۔قتل ناحق:
بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا ، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو قرآن کریم میںیوں بیان کیا گیا:'' اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ''(النسائ:٩٣)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔
٩۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے محروم لوگوں میں شامل ہیں، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ''جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ''(مسلم: ، حدیث:١٦٠٥)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجة:حدیث:٢١٥٥)
١٠۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ۖ نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا ،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:٦٣)۔
١١۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا:
مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ، پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمۖ کا ارشاد گرامی ہے :'' ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے ''(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:٥٧١٣)
آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ عزوجل کے بے پایاںاحسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں،انہیں دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں''لیلة المبارکہ''لیلة الصک'' ''لیلة القدر''۔ (تفسیرالقرطبی:١٢٧١٦)
اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر٣میں مذکور''لیلة مبارکہ''کی تفسیرحضرت عکرمہ نے''لیلة البراة''(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی١٧٣٤)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ''حمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،ِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ '' (الدخان:١ـ٤)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلة البراء ة کہتے ہیں،(عکرمہ بروایت جریر)
اس کو لیلة البراء ة اس لئے کہتے ہیں ، اس کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براة وخلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباس سے روایت کرتے ہیں''اللہ عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:٣٦٨٨)
داد ودہش اور نوازش کی رات:
یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔
لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ''آگاہ ہوجاؤ''کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروںہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجائ،فی لیلة النصف من شعبان،حدیث:١٣٨٨)
اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ''ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:١٨٨٦)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔
عام معافی اورمغفرت کی رات
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان کرناچاہیے حضوراکرم ۖنے اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ۖنے فرمایا:''پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان:حدیث٧٣٩)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔
اس رات کے محروم لوگ
عمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟
یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیںان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (١)مشرک (٢)کینہ پرور(٣)چغل خور(٤)زانی (٥)والدین کا نافرمان (٦)سودکھانے والا(٧) شرابی (٨)کا ناحق قتل کرنے والا (٩)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔(١٠)اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے والا(١١) قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،حدیث٣٥٥،فضائل الاوقات بیہقی،حدیث ٢٧)
١۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے ''اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم'' (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:١٣)اور ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :''بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا''(النسائ:٤٨)
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایاہے:
'' اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ تفصیلات یہ ہیں:
علم میں شریک ٹھہرانا:-
یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔
اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔
عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ''(معارف القرآن)
(١) کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں کا مجموعہ ہے :
امام غزالی نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں: حسد، شماتت، سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ کرنا(کیمیائے سعادت: ٣٣٣)
کینہ پرور کی بخشش نہیںہوتی اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں(مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:٢٥٦٥)
٣۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔
ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید بتلایا گیا ہے'' الغیبة أشد من الزنا'' غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع الزوائد: باب ما جاء فی الغیبة والنمیمة،حدیث:١٣١٢٨)اور ایک روایت میں فرمایا:''لا یدخل الجنة قتّات'' (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من النمیمة، حدیث:٢٠٥٦)
٤۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی کریم ۖ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں۔
٥۔والدین کا نافرمان:
والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے ایک تو نافرمانی کرنے والا شخص یعنی والدین کی نافرمانی کرنے والا شخص اور دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند عبد اللہ بن عمر،حدیث:٦١٨٠)
٦۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجة، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:٢٢٧٣)
٧۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیںہوتی، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث٣٦٦٧)
٨۔قتل ناحق:
بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا ، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو قرآن کریم میںیوں بیان کیا گیا:'' اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ''(النسائ:٩٣)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔
٩۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے محروم لوگوں میں شامل ہیں، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ''جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ''(مسلم: ، حدیث:١٦٠٥)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجة:حدیث:٢١٥٥)
١٠۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ۖ نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا ،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:٦٣)۔
١١۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا:
مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ، پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمۖ کا ارشاد گرامی ہے :'' ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے ''(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:٥٧١٣)
آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔
Monday 25 May 2015
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ تم نے کیا
کہہ دیا؟
رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی
مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
سیاست میں پارٹیوں کا ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید
بنانااور ایک دوسرے کی کمی کوتاہی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اپنی اچھائی سچائی
اور خوبی کے گن گانا ایک معمولی سا عمل ہے ، یہ ہر سیاسی پارٹی کا وطیرہ اور طرہ
رہا ہے کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کے دور قیادت کو برا کہتی ہے اور اپنے دور اقتدار
کو بہتر اور خوب تر گردانتی ہے ، اپنی پارٹی کی ترقی اور عروج کے لئے اس کی قصیدہ
خوانی خواہ وہ حقیقت سے کس قدر دور کیوں نہ ہوں ، یہ معمولی کاسا عمل ہے ، لیکن بر
سر اقتدار حکمراں پارٹی نے دیگر پارٹیوں کو ہدف تنقید بنانا اور ان کے مٹی پلید
کرنا اور ان کے نام ونشان کو مٹانا اور ان کی خامیوں کا اظہار وافشاء تو ٹھیک رہا
؛ لیکن ان کی خوبیوں کو بھی خامیوں میں بدلنا اور کسی بھی پارٹی کو تنقید کے نشانہ
بنانے کے لئے جو حربے اور وسیلے حکمراں بر سر اقتدار جماعت اختیار کر رہی ہے ، یہ
کسی بھی طرح اخلاقی پیمانہ میں نہیں سماتے ، ہمیشہ سے ہندوستان ایک مذہبی ملک رہا
ہے ،سچائی ، صداقت، اہنسا ، بھائی چارہ ، میل میلاپ ،اخلاق واقدار پر یہاں کے باسیوں
کی گرفت مضبوط رہی ہے ، وہ اپنے ملک کی ریت ورسم اور یہاں کے اخلاقی پیمانوں کو
بداخلاقی کے کیچڑ میں ڈال کر تباہ وبرباد کرنا نہیں چاہتے ، لیکن بر سر اقتدار
حکمراں دوسرے پارٹیوں کو خامیوں کو اجاگر ضرور کرتے ، لیکن اس میں حد سے تجاوز کر
جانااور میڈیا کے سہارے کسی بھی پارٹی کو اس قدر نشانہ بنانا اور اس کی امیج خراب
کر نے کوشش کرنااور حقائق اور سچائیوں اور صداقتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، یہ
ہماری ریت ورسم اور ہمارے ملک کے اخلاقی پیمانوں کے ہم آہنگ وہم رنگ نہیں ، اگر
اپوزیشن اور مخالف پارٹی کو ہدف تنقید بنانے کاعمل اس سے تجاوز کر کے ملک کی اہانت
کے دائرہ میں آتا ہے تو یہ نہایت قبیح عمل شمار ہوتا ہے ، اس ملک کا ہر باسی اپنے
اس ملک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے ، وہ کیوں کر ملک کی توہین والے الفاظ
برداشت کرسکتا ہے ، ملک کے وزیر اعظم کے دور ہ جنوبی کوریا کے موقع سے اپنے بیانات
میں انہوں نے اپنی ایک سالہ دورِ حکمرانی کی تعریف کے پل باندھنے اور مخالف پارٹیوں
اور ان کے دور اقتدار ؛ بلکہ ہندوستان کے پچھلے تمام ادوار کو انہوں نے بالکل نیچا
اور عمل ، جدوجہد اور ترقی وعروج کے لحاظ سے بالکل کمتر او ر حقیر تر گردانا ہے ،
ہمارے ملک کی ایک تاریخ ہے جو بہت قدیم ہے ، یہاں پر جنگ وجدال وحکمرانی کے مختلف
ادوار اور نشیب وفراز رہے ہیں ، کتنے سلاطین آئے اور کتنی حکومتیں پنپیں اور انہوں
نے اپنے مختلف ادوار میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ،، لیکن صرف اپنی ایک سالہ
حکمرانی کی اس قدر قصیدہ خوانی کے پچھلے ہندوستان کی تاریخ کے تمام تھیکے اور پھیکے
نظر آئیں یہ بات قرین قیاس اور عقل سے ماوراء نظر آتی ہے، ملک کے وزیر اعظم کے کا یہ
ریماک کہ'' ایک سال قبل ہندوستانی ہونے پر عارمحسوس ہوتا تھا'' یہ جملہ جہاں انانیت
، غرور وگھمنڈ کا ترجمان ہے ، حقیقت سے بھی کوسوں ہے ، صرف مبالغہ آرائی اور ملمع
سازی پر مبنی ہے، اور ایک طرح سے یہ ملک کی اہانت کے بھی مترادف ہے کہ ملک کے
موجودہ وزیر اعظم خود اپنے ملک کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، انہیں اپنی
حکمرانی پر اتنا ناز اور فخر ہے ، وہ اپنے جملہ میں پہناں ہزاروں دیگر معانی ومفاہیم
سے یکسر اپنی آنکھ موند لئے ہے ، اس جملہ سے گرچہ وہ اپنی حکمرانی کے قصیدے پڑھنا
چاہتے ہیں ؛ لیکن اس ملک کی اہانت بھی لازم آتی ہے کہ اپنے دور حکمرانی کی شروعات
سے قبل ہندوستان اس قابل نہیں تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کی وہ رہائش بن سکے ، ایسی
کیاوجہ تھی کہ ملک کی فضاء ان کو راس نہیں آئی ؟ کیا ملک کے باشندے نیچ اور حقیر
تھے ؟ یا یہاں کی تہذیب وتمدن اور رکھ رکھاؤ میں برائی تھی، بجا طور ملک کے وزیر
اعظم کے اس ریمارک پر ملک کے 38ہزارسے زائد باسیوں نے ٹوٹیر پروزیر اعظم کے اس ریمارک
کی مذمت کی ، بعض لوگوں نے تو ان ریمارکس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا
کہ مودی خود اپنے ملک کو بدنما اور داغدار بنار ہے ہیں ، ٹویٹر کے ایک صارف نے یہ
تحریر کیا کہ '' مودی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں
ہندوستان میں پیدا ہونے پر شرم وعار محسوس ہوتا ہے ، جب کہ ہر ہندوستانی کو اپنے
ملک کے شہری ہونے پر ہمیشہ ہی سے فخر رہا ہے ''مودی نے سیوول میں پیر کے دن
ہندوستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: '' ہم نے ماضی میں کونسے ایسے
گناہ کئے تھے کہ ہندوستانی سرزمین پر پیدا ہوئے ، کیا یہ مملکت ہوسکتی ہے ؟ کیا یہاں
کوئی حکومت ہے ؟ ہم اس ملک کو خیر آباد کہہ دیں گے(یعنی اپنے دور اقتدار سے قبل
ہندوستانیوں کا یہ رجحان تھا)مزید یہ کہا کہ: '' ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہندوستانی
عوام اس ملک کو چھوڑدینے کے خواہشمند تھے ، تاجربرادری کہا کرتی تھی کہ ہمیں اس
ملک میں کاروبار نہیں کرنا چاہئے، یہ تمام افراد اب اپنے ملک کو واپسی کے خواہاں ہیں''حقیقت
یہ ہے کہ ملک کا جو بھی ملک سے باہر کسی بھی ملک میں جاتا ہے اس کے پیش نظر ملک کی
ترقی ، نیک نامی ، ملک اور اہل ملک کی معاشی استحکام ومضبوطی اور ترقی یافتہ ممالک
میں اپنے روشن اور تابندہ کارناموںسے اپنے ملک کی شہرت اور عزت مقصود بنا کر جاتا
ہے ، ایسے ناجانے کتنے ہندوستانیوں نے بیرونِ ملک رہ کر اپنے کارہائے نمایاں سے
اپنے ملک کا نام بیرونِ ملک روشن کیا، وہ تو ہر گز اپنے ملک کونہ چھوڑتے ، کیوں کر
کوئی شخص اپنی اس فضاء کو جس فضا ء میں اس نے لڑکپن کی آنکھیں لیں، جہاں بچپن کی
رنگ برنگی یادیں وابستہ کی ، جہاں اس کے آباء واجداد اور اس کے خونی رشتہ داری کا
سلسلہ ہے وہ اس کو چھوڑ سکتا ہے ، ہمارا ملک تو ترقی پذیر ملک ہے ،یہاں دنیا کی عظیم
جمہوریت ہے ، یہاں کی مستقل تہذیب ورایات ہیں ، یہاں امن وسکون ہے ، اس سے کیوں کر
کوئی فرار اختیار کرسکتا ہے ۔کیوں کر کوئی اس ملک میں رہنے میں عار وشرمندگی محسوس
کرسکتاہے ،اجنبی ملک اجنبی ہی ہوتا ہے ،یہاں اس کے اپنے اہل وعیا ل کے علاوہ اس کا
کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔وہ اجنبی ملک میں سب کچھ رکھتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کی
کمی محسوس کرتا ہے ؛ صرف ملک کاباشندہ ملک کے باہر جاتا ہے تو ملک کی معیشت اور
استحکام اور ملک کی نیک نامی کے لئے ۔آج بھی این آر آئیز کے مسائل اخبارات کی زینت
بنتے ہیں ، کسی بھی این آر آئیز سے اس کے کے دل کو ٹٹولیئے کہ وہ کیا وہ اپنے ملک
سے دوری پر راضی ہے ، لیکن اس کی مجبوری ہے خواہ ترقی کی خواہش کی شکل میں ہو، یا
معاشی استحکام کی شکل میں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک میں اپنے زندگی کے تلخ ایام
گذارنے پر مجبور ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ تم نے کیا
کہہ دیا؟
رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی
مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
سیاست میں پارٹیوں کا ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید
بنانااور ایک دوسرے کی کمی کوتاہی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اپنی اچھائی سچائی
اور خوبی کے گن گانا ایک معمولی سا عمل ہے ، یہ ہر سیاسی پارٹی کا وطیرہ اور طرہ
رہا ہے کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کے دور قیادت کو برا کہتی ہے اور اپنے دور اقتدار
کو بہتر اور خوب تر گردانتی ہے ، اپنی پارٹی کی ترقی اور عروج کے لئے اس کی قصیدہ
خوانی خواہ وہ حقیقت سے کس قدر دور کیوں نہ ہوں ، یہ معمولی کاسا عمل ہے ، لیکن بر
سر اقتدار حکمراں پارٹی نے دیگر پارٹیوں کو ہدف تنقید بنانا اور ان کے مٹی پلید
کرنا اور ان کے نام ونشان کو مٹانا اور ان کی خامیوں کا اظہار وافشاء تو ٹھیک رہا
؛ لیکن ان کی خوبیوں کو بھی خامیوں میں بدلنا اور کسی بھی پارٹی کو تنقید کے نشانہ
بنانے کے لئے جو حربے اور وسیلے حکمراں بر سر اقتدار جماعت اختیار کر رہی ہے ، یہ
کسی بھی طرح اخلاقی پیمانہ میں نہیں سماتے ، ہمیشہ سے ہندوستان ایک مذہبی ملک رہا
ہے ،سچائی ، صداقت، اہنسا ، بھائی چارہ ، میل میلاپ ،اخلاق واقدار پر یہاں کے باسیوں
کی گرفت مضبوط رہی ہے ، وہ اپنے ملک کی ریت ورسم اور یہاں کے اخلاقی پیمانوں کو
بداخلاقی کے کیچڑ میں ڈال کر تباہ وبرباد کرنا نہیں چاہتے ، لیکن بر سر اقتدار
حکمراں دوسرے پارٹیوں کو خامیوں کو اجاگر ضرور کرتے ، لیکن اس میں حد سے تجاوز کر
جانااور میڈیا کے سہارے کسی بھی پارٹی کو اس قدر نشانہ بنانا اور اس کی امیج خراب
کر نے کوشش کرنااور حقائق اور سچائیوں اور صداقتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، یہ
ہماری ریت ورسم اور ہمارے ملک کے اخلاقی پیمانوں کے ہم آہنگ وہم رنگ نہیں ، اگر
اپوزیشن اور مخالف پارٹی کو ہدف تنقید بنانے کاعمل اس سے تجاوز کر کے ملک کی اہانت
کے دائرہ میں آتا ہے تو یہ نہایت قبیح عمل شمار ہوتا ہے ، اس ملک کا ہر باسی اپنے
اس ملک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے ، وہ کیوں کر ملک کی توہین والے الفاظ
برداشت کرسکتا ہے ، ملک کے وزیر اعظم کے دور ہ جنوبی کوریا کے موقع سے اپنے بیانات
میں انہوں نے اپنی ایک سالہ دورِ حکمرانی کی تعریف کے پل باندھنے اور مخالف پارٹیوں
اور ان کے دور اقتدار ؛ بلکہ ہندوستان کے پچھلے تمام ادوار کو انہوں نے بالکل نیچا
اور عمل ، جدوجہد اور ترقی وعروج کے لحاظ سے بالکل کمتر او ر حقیر تر گردانا ہے ،
ہمارے ملک کی ایک تاریخ ہے جو بہت قدیم ہے ، یہاں پر جنگ وجدال وحکمرانی کے مختلف
ادوار اور نشیب وفراز رہے ہیں ، کتنے سلاطین آئے اور کتنی حکومتیں پنپیں اور انہوں
نے اپنے مختلف ادوار میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ،، لیکن صرف اپنی ایک سالہ
حکمرانی کی اس قدر قصیدہ خوانی کے پچھلے ہندوستان کی تاریخ کے تمام تھیکے اور پھیکے
نظر آئیں یہ بات قرین قیاس اور عقل سے ماوراء نظر آتی ہے، ملک کے وزیر اعظم کے کا یہ
ریماک کہ'' ایک سال قبل ہندوستانی ہونے پر عارمحسوس ہوتا تھا'' یہ جملہ جہاں انانیت
، غرور وگھمنڈ کا ترجمان ہے ، حقیقت سے بھی کوسوں ہے ، صرف مبالغہ آرائی اور ملمع
سازی پر مبنی ہے، اور ایک طرح سے یہ ملک کی اہانت کے بھی مترادف ہے کہ ملک کے
موجودہ وزیر اعظم خود اپنے ملک کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، انہیں اپنی
حکمرانی پر اتنا ناز اور فخر ہے ، وہ اپنے جملہ میں پہناں ہزاروں دیگر معانی ومفاہیم
سے یکسر اپنی آنکھ موند لئے ہے ، اس جملہ سے گرچہ وہ اپنی حکمرانی کے قصیدے پڑھنا
چاہتے ہیں ؛ لیکن اس ملک کی اہانت بھی لازم آتی ہے کہ اپنے دور حکمرانی کی شروعات
سے قبل ہندوستان اس قابل نہیں تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کی وہ رہائش بن سکے ، ایسی
کیاوجہ تھی کہ ملک کی فضاء ان کو راس نہیں آئی ؟ کیا ملک کے باشندے نیچ اور حقیر
تھے ؟ یا یہاں کی تہذیب وتمدن اور رکھ رکھاؤ میں برائی تھی، بجا طور ملک کے وزیر
اعظم کے اس ریمارک پر ملک کے 38ہزارسے زائد باسیوں نے ٹوٹیر پروزیر اعظم کے اس ریمارک
کی مذمت کی ، بعض لوگوں نے تو ان ریمارکس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا
کہ مودی خود اپنے ملک کو بدنما اور داغدار بنار ہے ہیں ، ٹویٹر کے ایک صارف نے یہ
تحریر کیا کہ '' مودی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں
ہندوستان میں پیدا ہونے پر شرم وعار محسوس ہوتا ہے ، جب کہ ہر ہندوستانی کو اپنے
ملک کے شہری ہونے پر ہمیشہ ہی سے فخر رہا ہے ''مودی نے سیوول میں پیر کے دن
ہندوستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: '' ہم نے ماضی میں کونسے ایسے
گناہ کئے تھے کہ ہندوستانی سرزمین پر پیدا ہوئے ، کیا یہ مملکت ہوسکتی ہے ؟ کیا یہاں
کوئی حکومت ہے ؟ ہم اس ملک کو خیر آباد کہہ دیں گے(یعنی اپنے دور اقتدار سے قبل
ہندوستانیوں کا یہ رجحان تھا)مزید یہ کہا کہ: '' ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہندوستانی
عوام اس ملک کو چھوڑدینے کے خواہشمند تھے ، تاجربرادری کہا کرتی تھی کہ ہمیں اس
ملک میں کاروبار نہیں کرنا چاہئے، یہ تمام افراد اب اپنے ملک کو واپسی کے خواہاں ہیں''حقیقت
یہ ہے کہ ملک کا جو بھی ملک سے باہر کسی بھی ملک میں جاتا ہے اس کے پیش نظر ملک کی
ترقی ، نیک نامی ، ملک اور اہل ملک کی معاشی استحکام ومضبوطی اور ترقی یافتہ ممالک
میں اپنے روشن اور تابندہ کارناموںسے اپنے ملک کی شہرت اور عزت مقصود بنا کر جاتا
ہے ، ایسے ناجانے کتنے ہندوستانیوں نے بیرونِ ملک رہ کر اپنے کارہائے نمایاں سے
اپنے ملک کا نام بیرونِ ملک روشن کیا، وہ تو ہر گز اپنے ملک کونہ چھوڑتے ، کیوں کر
کوئی شخص اپنی اس فضاء کو جس فضا ء میں اس نے لڑکپن کی آنکھیں لیں، جہاں بچپن کی
رنگ برنگی یادیں وابستہ کی ، جہاں اس کے آباء واجداد اور اس کے خونی رشتہ داری کا
سلسلہ ہے وہ اس کو چھوڑ سکتا ہے ، ہمارا ملک تو ترقی پذیر ملک ہے ،یہاں دنیا کی عظیم
جمہوریت ہے ، یہاں کی مستقل تہذیب ورایات ہیں ، یہاں امن وسکون ہے ، اس سے کیوں کر
کوئی فرار اختیار کرسکتا ہے ۔کیوں کر کوئی اس ملک میں رہنے میں عار وشرمندگی محسوس
کرسکتاہے ،اجنبی ملک اجنبی ہی ہوتا ہے ،یہاں اس کے اپنے اہل وعیا ل کے علاوہ اس کا
کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔وہ اجنبی ملک میں سب کچھ رکھتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کی
کمی محسوس کرتا ہے ؛ صرف ملک کاباشندہ ملک کے باہر جاتا ہے تو ملک کی معیشت اور
استحکام اور ملک کی نیک نامی کے لئے ۔آج بھی این آر آئیز کے مسائل اخبارات کی زینت
بنتے ہیں ، کسی بھی این آر آئیز سے اس کے کے دل کو ٹٹولیئے کہ وہ کیا وہ اپنے ملک
سے دوری پر راضی ہے ، لیکن اس کی مجبوری ہے خواہ ترقی کی خواہش کی شکل میں ہو، یا
معاشی استحکام کی شکل میں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک میں اپنے زندگی کے تلخ ایام
گذارنے پر مجبور ہے ۔
Tuesday 28 April 2015
احترامِ مساجد کے منافی چند قا بل اصلاح پہلو
بسم اللہ الرحمن الرحیم
احترامِ مساجد کے منافی چند قا بل اصلاح پہلو
مفتی
رفیع الدین حنیف قاسمی
جو مقامات اور جگہیں شریعت
کی نگاہ میںجس قدر معزز ومحترم ، فضائل ومناقب کی حامل ، خیر وبرکت کی باعث اور
اجر وثواب کی موجب ہوتی ہیں ، ان کی بے احترامی وناقدری ، بے ادبی وبے توقیری اور
ان کے عظمت وتقدس کی پامالی بھی اسی قدر سنگین ، قابلِ گرفت اور باعثِ عقاب وسزا
ہوتی ہے ، مساجد جو در اصل اس روئے زمین پر اللہ عزوجل کے گھر ہوتی ہیں ، جنہیں
ذاتِ خداوندی سے خصوصی نسبت اور تعلق ہوا کرتا ہے ، جہاں ہردم تجلیاتِ ربانی
کاورود اورانوار وبرکات کا نزول ہوتا رہتا ہے ،جو آسمانو ں کے مکینوں کے لئے اس
نقشۂ دنیا پر ایسے ہی تابناک اور روشن ہوتے ہیں جیسے زمین پر رہنے والوں کے لئے
ستارے روشن اور چمکدار ہوتے ہیں ، ان کی اہمیت وافادیت اور عظمت ورفعت کا اندازہ
اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس روئے زمین پر اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ محبوب اور
پسندیدہ جگہیں یہی ہوتی ہیں، اسی وجہ سے ان کے آباد کرنے ، ان کی نگہداشت اور دیکھ
بھال کرنے یاکسی بھی طرح سے ان سے لگاؤ اور وابستگی رکھنے والوں کے تعلق احادیث
وروایات میںمختلف انداز سے خوشخبریاں سنائی گئیں ہیں ، چنانچہ ایک روایت میں تعمیر
مسجد کو رب ذو الجلال کی رضامندی اورجنت کے اعلی وارفع محلات ودرجات کے حصول کا ذریعہ
بتلایا گیا ہے (مشکوة :٦٨)ایک دوسری روایت میں مسجد کے عظمت وتقدس کا اظہار ان
الفاظ میں کیا گیا ہے ، ''جو شخص صبح وشام بکثرت مسجد میں آمد روفت رکھتا ہو ،اس کی
ہر آنے جانے پر اللہ عزوجل اس کے لئے خصوصی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں(مشکوة:٦٨)ایک
روایت میں مسجد کے احترام وعظمت کو یوں اجاگر کیا گیا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو
کرے ، پھر مسجد کی طرف چلے تو اس کے ہر اٹھنے والے قدم پر اس کے نامۂ اعمال میں ایک
نیکی کا اضافہ ہوتا ہے اور ایک بدی کو مٹادیا جاتا ہے ( مشکوة : ٦٨) ایک روایت میں
مسجد کی عظمت شان اور اس کی شرعی حیثیت ووقار کی جانب ان انعاماتِ خداوندی اشارہ کیا
گیا ہے ، ''جو شخص مسجد کو اپنا گھر بنالے ( یعنی مسجد میں رہ کر مسجد والے اعمال
کو زندہ کرے ) اس کے بارے میں اللہ عزوجل نے یہ ذمہ لیا ہے کہ : میں اس کو راحت
دوں گا، اس پر رحمت کروں گا ، پل صراط کا راستہ اس کے لئے آسان کروں گا ، اپنی رضا
اسے نصیب کروں گا اور اسے جنت عطا کروں گا ''(مجمع الزوائد: ١٣٤٢)ایک موقع آپ ا نے
مسجد کے عظمت کے پہلو کا اظہار یوں فرمایا کہ :آپ ا نے بکثرت مسجد آنے والے کو اس
کے مومنِ کامل ہونے کی علامت قرار دیا (ترمذی ، مشکوة : ٦٩) ۔
مذکور ہ بالا روایات یا ان
جیسی دیگر کتب احادیث میں مذکور روایات میں مساجد سے خصوصی تعلق رکھنے والوں کے
بارے میں اس طرح کی جو بشارتیں اور خوش خبریاں سنائی گئی ہیں ، ان کی روشنی میں
مساجد کے عظمت وتقدس اور ان کی بلندیٔ شان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، دراصل
ان روایات کے ذکر سے مساجد کی عظمت وتقدس اور ان کے احترام وعقیدت کو امتِ مسلمہ
کے قلوب میں زندہ وتابندہ کرنا مقصود ہے ؛ تاکہ امت ان کی عظمت ورفعت کا اندازہ
لگا کر ان کی بے ادبی وبے احترامی یا کسی بھی ایسے عمل کے ارتکاب سے گریزاں ہوجو
ان کے عظمت وتقدس کو پامال کرتا ہو؛ چونکہ کسی بھی چیز کے مثبت اور ایجابی پہلو کے
ذکر سے اس کے منفی اور سلبی پہلو کی شناعت وقباحت از خود نمایاں اور اجاگر ہوجاتی
ہے ، اس لئے یہاں عظمت مساجد پر دلالت کرنے والی چند روایات کا ذکر کیا گیا ، ہم
درج ذیل سطور میں مسجد کے تقدس کے منفی چند ان اعمال کی طرف نشاندہی کرنا مناسب
سمجھتے ہیں جس میں لوگ عموما مبتلا ہیں ، ان کی برائی وقباحت قلب ودماغ سے محو
ہوچگی ہے ، ان کو نہایت معمولی اور حقیر تر سمجھا جاتا ہے ؛ حالانکہ احترام مساجد
کے منافی یہ اعمال شرعی نقطۂ نظر سے نہایت ہی خطرناک ، سنگین ، انجام سوز ، عاقبت
گداز اور ناقابل عفو ودرگذر ہیں ۔
(١) مسجد میں لایعنی باتیں
کرنا : شریعت نے مسجد کا نظام اس لئے رکھا ہے کہ اس میں وہ اعمال انجام دیئے جائیں
جو اللہ عزوجل کی عظمت وبڑائی ، اس کی بزرگی وبرتری اور اس کی توحید وربوبیت دلالت
کرنے والے ہوں ، جس کا سب سے بڑا مظہر ''نماز '' ہے ، جس میں بندہ اپنے علائق
ومشغولیات سے علاحدہ ہو کر ، پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ اپنے خالق ومالک کے
سامنے سرتاپا عجز ونیاز بن کر اس کی کبرائی اور شانِ رفعت کا اظہار اپنی نماز کے
ان مجموعی اعمال کے ذریعہ کرتا ہے ؛ لہٰذا کوئی بھی ایسا عمل جو مسجد کے مقصد ونصب
العین کے منافی ہو اس کے ارتکاب کی شرعا وہاں کس طرح گنجائش ہوسکتی ہے ، لایعنی
اور غیر ضروری باتیں بذات خود ممنوع ہیں ، پھر خصوصا ان کی مسجد میں مشغولیت نہایت
تباہ کن ، بھیانک اور غضب خداوندی کو دعوت دینے کے مرادف ہوسکتی ہے ۔لیکن عموما
لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ مسجد میں آکر مختلف حلقہ جات کی شکل میں دنیوی باتوں میں
مصروف نظر آتے ہیں ، جس میں ہر طرح کی رطب ویابس اور خشک وتر گفتگو شامل ہوتی ہے ،
کسی کی غیبت ہورہی ہے ، کسی کی توہین وتذلیل کی جارہی ہے ، کسی کا ٹھٹا اور مذاق
اڑایا جارہا ہے ، کہیں دل لگی اور مزاح وظرافت پر مشتمل جملوں کے تبادلے ہورہے ہیں
، کبھی تجارتی اور کاروباری مصروفیات کی گھتیاں سلجھائی جارہی ہیں، ہر قسم کے شور
وشرابے اورہنگامے کا بازار گرم ہے ، جیسے مسجد نہیں ہوئی ؛ بلکہ کوئی بیٹھک یا تفریح
گاہ ہوئی ، خصوصا مسلکی جھگڑوں اور مسجد کی صدارت کے تنازعے اور رسہ کشی نے تو
مسجد کو پہلوانوں کا دنگل بنادیا ہے ، اپنے کو فریق مقابل سے اچھا، سیدھا اور سچا
باور کرانے کے لئے مسجد میں ہر طرح کی اوجھی ، نامناسب اور غیر شائستہ حرکت بھی
گوارہ کر لی جاتی ہے ، بسااوقات تو نوبت گالی گلوچ ، سب وشتم سے آگے بڑھ کر ہاتھا
پائی اور مکے بازی تک پہنچ جاتی ہے ، مسجد کی اس بھیانک صورتحال کی جانب آنحضرت ا
نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی پیشین گوئی فرمادی تھی :'' ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ
دنیوی باتیں مسجد میں ہونے لگیں گی ، ان کے ساتھ نہ بیٹھنا کہ خدا کو ایسے لوگوں کی
کوئی ضرورت نہیں (مشکوة :٧١) یعنی ان کے اعمال اللہ بارگاہِ خداوندی میں شرفِ قبولیت
سے باریاب نہیں ہوتے ؛ بلکہ خدشہ تو ان کے سارے اعمال اور نیکیوں کے ضیاع کا ہے۔
نبی کریم اکا ارشاد ہے : مسجد
میں باتیں کرنا نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے (جلادیتی ہے
) (الفقہ الحنیفی فی ثوبہ الجدید : ٤١٦٥) مسجد میں بے ہودہ اور لا یعنی گفتگو کی
مذمت پر یہ روایت صریح دا ل ہے : جب کوئی شخص مسجد میں باتیں کرنے لگتا ہے تو
فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ : اے اللہ کے ولی ! خاموش ہوجا ، پھر اگر با ت کرتا ہے تو
فرشتے کہتے ہیں : اے اللہ کے دشمن! چب ہوجا، پھر اگر بات کرتا ہم تو فرشتے کہتے ہیں:
تجھ پر اللہ کی لعنت ہو ! خاموش ہو جا (کتاب المدخل :٥٥٢، بحوالہ فتاوی رحیمیہ :١٦١٢)مسجد
میں شور شرابہ اور کسی بھی قسم کی آواز کے بلند کرنے کی ممانعت پر وہ اثر بھی
دلالت کرتی ہے جو سائب بن یزید سے مروی ہے کہ جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کادو
طائف کے باشندوں کو مسجد نبوی میں محوِ گفتگو دیکھ کر یہ فرمانا منقول ہے کہ : تم
دونوں مدینے کے رہنے والے ہوتے میں تو میں تمہاری اچھی طرح گوش مالی کردیتا (بخاری
:مشکوة:٧١)اگر بقدر ضرورت دنیوی امور سے متعلق مباح گفتگو کی جائے ، اس کو مستقل
مشغلہ اور مقصد نہ بنایا جائے تو پھر اس کی اجازت ہے (رد المحتار مع الدر المختار :
٤٣٦٢، زکریا)۔
(٢) مسجد میں بدبودارچیزیں
لے آنا : سگریٹ ، بیڑی ، گٹکھا یا تمباکو
پر مشتمل دیگر اشیاء کا استعمال اس وقت عام ہوچکاہے ، لوگ تمباکو پر مشتمل ان اشیاء
کے استعمال کے بعد بے محابا مسجد میں چلے آتے ہیں ؛ حالانکہ بدبودار چیزیں کھاکر
مسجدمیں آنا شرعا منع ہے ، جب ایک سلیم الطبع اور صحیح الفطرت انسان ان اشیاء کی
بدبو کو برداشت نہیں کرسکتا تو ملائکہ جیسی نورانی نفیس اور پاکیزہ مخلوق جن کی ہر
دم مسجد میں آمد روفت رہتی ہے ان اشیاء کی بدبو کو کیسے برداشت کرے گی ؟ کیا ہم ان
کو اذیت اور تکلیف پہنچاکر ان کی بددعاؤں کے مستحق نہیں ہوجائیں گے ؟ ایسے ہی
مزدور پیشہ اور گاڑیوں کے میکانک حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ لوگ گرد وغبار ، پسینے ،
گریس ، آئیل ، پٹرول اور ڈیزل میں آلودہ کپڑوں کے ساتھ چلے آتے ہیں ، یہ حضرات خود
اپنے دل پر ہاتھ کر سوچیں کہ جب وہ لوگ ان کپڑوں کو زیب تن کر کے اپنے اعزاء
واقرباء اور دوست واحباب کے پاس جانا گوارا ہ نہیں کرتے تو یہ لوگ اللہ عزوجل کی
ذات جو کہ سب سے زیادہ لائق احترام اور باعث صد تکریم ہوتی ہے ، ان گندے او
ربدبودار ملبوسات کے ساتھ ان کی بارگاہ میں جانا کیسے گوارہ کرلیتے ہیں ؟حالانکہ
شریعت نے خصوصا ہر نماز کے وقت زیب وزینت اور آرائش کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے
، چنانچہ ارشاد فرمایا: اے ابن آدم ! ہر نماز کے وقت اپنی زینت کو اختیار کرو (الأعراف
: ٣١) یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اچھے اور پاکیزہ ملبوسات وپوشاک کی نعمت کے
استعمال کا موقع اس کی عبادت سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ اسی کی بخشی ہوئی نعمتوں
کا اثر لے کر اس کی بارگاہ میں حاضری دی جائے۔اسی طرح لہسن جیسی بدبودار اشیاء کے
استعمال کے فورا بعد مسجد میں آنے کی ممانعت روایات میں مذکور ہے : حضرت جابر رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : آپ ا نے فرمایا : جو شخص اس بدبودار درخت کو کھائے ، وہ
ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ؛ چونکہ جو چیزیں انسان کے لئے تکلیف دہ اور اذیت رساں
ہوتی ہیں ، اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے (مشکوة : ٦٩)ایک دوسری روایت میں
آنحضرت اسے ان دونوں درختوں (یعنی پیاز اور لہسن ) کے کھانے کی ممانعت منقول ہے ، یہ
آپ ا نے ارشاد فرمایا ہے کہ : کوئی ان دونوں درختوں کو کھاکر ہماری مسجد کے قریب
نہ آئے ، اگر کھانا ضروری ہو تو ان دونوں کو پکا کر کھائے (رواہ أبوداؤد ، مشکوة :
٧١) ایک دفعہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم اسے دریافت فرمایا کہ :
اے اللہ کے رسول ! کیا لہسن حرام ہے ؟ آپ ا نے فرمایا : نہیں ؛ لیکن میں اسے اس کی
بدبو سے ناپسند کرتا ہوں (ترمذی: ٣٢)مذکورہ بالاروایات سے یہ پتہ چلا کہ لہسن اور
پیاز کا استعمال فی نفسہ مکروہ نہیں ؛ بلکہ ان کی بدبو کی وجہ سے ان کے استعمال کے
بعد مسجد میں آنے سے منع کیا گیا ہے ، بیڑی ، سگریٹ ، گٹکھا اور دیگر تمباکو والی
اشیاء کا ان سے زیادہ بدبودار ، مضر صحت اور تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے ان کے
استعمال کے بعد مسجد میں آنا بدرجۂ اولی مکروہ ہوگا ( حاشیہ ترمذی : ٣٢) بلکہ ہر
ناپسندیدہ بووالی چیز کھاکر مسجد میں آنے سے منع کیا گیا ، اسی حکم میں وہ لوگ بھی
شامل ہیں جن کے منہ سے بدبو آتی ہو یا جن کو بدبودار زخم ہو ، ایسی ہی قصاب ، مچھلی
فروخت کرنے والے ، جذامی ، کوڑھی کے مرض میں مبتلا حضرات کا بھی اپنی اسی حالت میں
مسجد میں آنا منع ہے (شامی ٤٣٥٢، زکریا )
(٣) مسجد کو گندگی سے ملوث
کرنا : جہاں مسجد کی صفائی ستھرائی ، اس کی دیکھ ریکھ اور اس کی ضروریات کی تکمیل
ضروری ہے ، وہیں اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ اپنے کسی عمل سے مسجد گندگی سے ملوث
نہ ہونے پائے ، بہت سے لوگ مسجد میں آکر سر یا داڑھی میں کنگھا کرتے ہیں ، جس سے
مسجد ملوث ہوجاتی ہے ، اولا تو مسجد میں کنگھا کرنے احتراز کیا جائے ، اگر بغیر کسی
عمل کے غیر اختیاری طور پر سر یا داڑھی کے بال گر جائیں تو اسے اٹھا کر اپنے جیب میں
رکھے لے ، ایسے ہی لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ ناک آلائش اور ریزش وغیرہ کو مسجد میں
پھینک دیتے ہیں ، یا مسجد کے در ودیوار پر لگادیتے ہیں ، یا کوئی رستا ہوا زخم
ہوتو اس کے خون اور پیپ سے مسجد کے فرش کو ملوث کردیتے ہیں ، ریاح کا تقاضا ہوتو
اس کے مسجد میں اخراج سے بھی گریزنہیں کرتے ، مسجد میں اس طرح کی گندگی مچانے سے
بچائے ، ورنہ مختلف بیماریوں اور مصائب کی شکل میں اللہ عزوجل کی گرفت اور مواخذہ
کے ہم مستحق بن سکتے ہیں ، مسجد کو اس طرح گندا اور ملوث کرنے کی ممانعت پر وہ روایت
صراحتا دلالت کرتی ہے جس میں آپ ا نے اس دیہاتی سے جس نے انجانے میں مسجد میں پیشاب
کردیا تھاتو آپ ا نے اس سے یوں فرمایا تھا، یہ مساجد اس طرح پیشاب کرنے یا کسی بھی
قسم کی گندگی مچانے کے ہرگز لائق نہیں ہیں ، ان مساجد کا موضوع تو ذکرِ الٰہی ، یادِ
خداوندی ، نماز اور تلاوتِ قرآن ہے ، پھر آپ نے ایک شخص کو اس پر پانی بہانے کا
حکم فرمایا(رواہ مسلم :حیاة الصحابہ : ١٥٣٣)مسجد میں تھوکنے یا اس میں کسی بھی قسم
کی گندگی مچانے (جس میں سر یا داڑھی کے بال نوچنا، ناک یا زخم کی آلائش ، ریاح کا
خروج سب شامل ہیں) کی ممانعت وقباحت کا اندازہ درج ذیل روایات سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے کہ آپ انے فرمایا : میں نے اپنی امت کے برے اعمال میں اس تھوک کو بھی
پاپا ہے جو مسجد میں ڈالا گیا ہو پھر اسے دفن نہ کیا گیا ہو (رواہ مسلم ، مشکوة : ٦٩)آپ
نے ایک شخص کو محض اس وجہ سے منصبِ امامت سے معزول فرمادیا تھاکہ اس نے دورانِ
نماز قبلہ رخ تھوک دیا تھا ۔(رواہ ابوداؤد ، مشکوة :٧١)یہ فقہی عبارت بھی اس قسم
کے مسجد کے احترام کے منافی اعمال کے ارتکاب کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے ۔''مسجد میں
کسی ایسی نجاست کا لے آنا مکروہ ہے جس سے مسجد کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہو ، اسی
طرح مسجد میں ریاح بھی خارج نہ کرے ، اگر ریاح کے اخراج کی ضرورت درپیش ہو تو مسجد
سے باہر چلاجائے (الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:٤١٩٥)
(٤) مسجد کی تزئین اور اس
کی تعمیر میں تفاخر کی ممانعت : مسجد کی تعمیر اور اس کی تزئین میں بھی حد اعتدال
سے تجاوز نہ کیا جائے ؛ بلکہ بقدر ضرورت مسجد پختہ ، نفیس اور پر رونق بنالی جائے،
اگر عہدِ حاضر کے تعمیری معیار کو بھی پیش نظر رکھ لیا جائے تو کچھ منع نہیں ؛ لیکن
غیر معمولی تکلفات ، پھول بوٹے ، گل کاری ، نقش ونگار ، قیمتی نہایت ہی مزین قالین
اور فانوس وغیرہ کے انتظام سے گریزکیاجائے ، بہتر یہ ہے کہ مسجد کے در ودیوار سفید
ہوں ، نقش ونگار سے پاک ہوں ، ان پر کسی قسم کی تحریر نہ ہو ، تصویر اور کتابت سے
منقش کرنا مکروہ ہے (البحر الرائق :٢٥١٥) چونکہ اس طرح کی محض ظاہری زیب وزینت سے
مسجد کی رونق میں اضافہ نہیں ہوتا ؛ بلکہ اس سے مسجد کی بے احترامی ہوتی ہے ، مسجد
کی اصل زیب وزینت اس کی صفائی وستھرائی ، خوشبونیز نمازیوں کی زیادتی ، اچھے پوشاک
پہن کر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنیاور باادب بیٹھنے میں ہے ۔آج ہماری مساجد کی یہ
صورتحال ہوگئی ہے کہ وہ حسن تعمیر اور ذوق تزئین کے تو اعلیٰ وارفع معیار پرہوں گی
؛ لیکن اس کی اصل زیب وزینت یعنی اس میں مساجد والے اعمال کو زندہ کرنے کی فکر بہت
کم ہوگئی ، اسی حالت کی جانب حضور اکرم انے اس روایت اشارہ فرمایا تھاکہ : میں دیکھ
رہا ہوں کہ تم عنقریب مساجد کو اونچی بناؤگے جیسا کہ یہود ونصاری اپنے کلیسا ،
گرجا گھر اور چرچوں کو اونچابناتے ہیں (رواہ ابوداؤد : مشکوة : ٦٩) مساجد کی زیادہ
تزئین کی ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع میں
خلل واقع ہوتا ہے ، اس کی وجہ سے نمازی کی یکسوئی اور توجہ ہٹ جاتی ہے ، اس لئے
مسجد کی دیوار خصوصا محراب اورمحراب والی قبلہ کی جانب والی دیوار اور دائیں بائیں
جانب کی دیوار پر رنگین بیل بوٹے اور نقش ونگار کرنا جائز نہیں ( شامی زکریا :٤٣١٣)۔
(٥) مسجد کو بطور راستہ کے
استعمال کرنا : آج کل عموما مسجد کے دو راستے ہوتے ہیں ، بعض حضرات اپنی ضروریات
کے لئے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے ہیں یعنی مسجد
کو بطور گذرگاہ کے استعمال کرتے ہیں ، اس طرح مسجد کا بطور گذرگاہ استعمال شرعا
درست نہیں ؛ اس لئے کہ مساجد عبادت گاہ اور جائے نماز ہیں ، یہ ذکر الٰہی ، تلاوت
قرآن اور نماز کی ادائیگی کے لئے بنائے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ : ان مساجد کا موضوع تو اللہ کا ذکر ،
تلاوت قرآن اور نماز ہیں (ریاض الصالحین : ٥٩٧) لہٰذا اگر مسجد کا بطور راستہ کے
استعمال کے لئے فقہاء نے یہ شرط رکھی ہے کہ دن میں ایک دفعہ تحیة المسجد ادا کرے ،
جو شخص بغیر کسی عذر کے مسجد کو بطور گذرگاہ کے استعمال کا معمول بنانے لے تو
فقہاء نے ا س کے فاسق ہونے کی صراحت کی ہے (شامی ، زکریا : ٤٢٨٢) اس لئے مسجد کو
بطورِ گذرگاہ کے استعمال سے بچاجائے ؛ تاکہ اللہ عزوجل کی فہرست میں ہمارا شمار
کفار وفساق میں نہ ہو ۔
(٦) مسجد کو آرام گاہ
بنانا :
ایسے ہی بہت سے لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ اپنی
کاروباری مصروفیات کی تکان کو دور کرنے کے لئے مسجد میں آکر لیٹ جاتے ہیں؛ حالانکہ
ان کا نہ نماز سے کوئی واسطہ ہوتا ہے اورنہ مسجد کے دیگر اعمال سے کوئی سروکار ،
جب کہ شرعی نقطۂ نظر سے مسجد میں معتکف ، مسافر ، یا ایسا مقامی آدمی ہی ہوسکتا
ہے جو اعتکاف کی نیت سے نماز کے انتظار میں سورہا ہو، ان لوگوںکے لئے بھی ضروری ہے
کہ آدابِ مساجد کا خصوصی خیال رکھیں، سونے میں ایسی ہیئت اور شکل اختیار نہ کریں
جو مسجد کے احترام کے منافی ہو ، ورنہ محض اپنی اکتاہٹ اور سستی کے دور کر نے کے
لئے مسجد میں آرام کر لینا یہ عمل شرعا درست نہیں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ
ارشاد اس طرح مسجد کو آرام گاہ بنانے کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے ، خلید بن اسحاق
سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے مسجد میں سونے کے متعلق دریافت
کیا تو انہوں نے فرمایا : اگر یہ تیرا سونا نماز یا طواف کے لئے ہوتو کوئی حرج نہیں
(حیاة الصحابہ : ١٦١٣)''ویکرہ نومہ وأکلہ لا لمعتکف وغریب '' (شامی زکریا : ٤٣٥٢)
مسافر اور معتکف کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے مسجد میں کھانا اور سونا مکروہ ہے
۔اگر کوئی سونا ہی چاہتا ہوتو اسے چاہئے کہ وہ لوگ اعتکاف کی نیت کر کے مسجد میں
داخل ہوں جس قدر ہوسکے ذکر وشغل میں مصروف ہو یا نماز پڑھے ، پھر جو چاہے کرے ۔(شامی
:٣٥٢)
(٧) مسجد میں اپنے لئے جگہ
مخصوص کرلینا : بعض مساجد میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ مصلی جو نماز کے پابند ہوتے ہیں
، مسجد میں اپنے لئے جگہ مخصوص کر لیتے ہیں ، اپنی متعینہ جگہ میں ہی وہ لوگ نماز
پڑھتے ہیں ، اگر کوئی دوسرا شخص اس جگہ آکر بیٹھ جاتا ہے تو اسے اس جگہ سے اٹھادیتے
ہیں ؛ حالانکہ اس طرح سے اپنے لئے جگہ مخصوص کر لینااور دوسرے کو اس جگہ بیٹھنے پر
بیٹھنے سے اسے اٹھادینا ، اس طرح کا عمل درست نہیں ، چونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے
،جس میں تمام مسلمانوں کا برابر حق ہے ؛ بلکہ مسجد کے بانی یا متولی کے لئے بھی
اجازت نہیں کہ وہ مسجد میں کسی کے آنے سے روک دے ؛ چونکہ اس طرح کا یہ عمل کسی کو
مسجد میں آنے سے روک دینے کے مشابہ ہے اور کسی کو مسجد میں آنے سے روک دینے والے
کو اللہ عزوجل سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے ، ''اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو
مسجد میں ذکر الٰہی سے منع کرے ''(البقرة : ٥ے١١٤) چنانچہ در مختار میں ہے :'' اپنے
لئے جگہ مخصوص کر لینا مکروہ ہے ، پھر اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے شخص کو
زبردستی وہاں سے اٹھادے ، اگر چہ وہ مدرس ہی کیوں نہ ہو؛ اس لئے کہ مسجد کسی کی
ملک نہیں ہوتی ( در مع الشامی : ٤٣٦٥) یعنی اگر کوئی شخص کسی خاص جگہ درس دیتا ہو
، کسی دن ا س جگہ دوسرا شخص آکر درس دے تو پہلے شخص کے لئے یہ اجازت نہیں کہ وہ اس
شخص کو وہاں سے زبردستی اٹھائے ، ان فقہی عبارات کی روشنی میں یہ پتہ چلا کہ کسی
کا مسجد میں اپنے لئے جگہ مخصوص کرلینا درست نہیں۔
(٨) مسجد میں بھیک مانگنے
اور دینے کی ممانعت : بہت سے مرد وخواتین کو دیکھاجاتا ہے کہ مسجد کے اندر آکر
نمازیوں سے بھیک مانگتے ہیں؛حالانکہ مسجد میں آکر بھیک مانگنے کا یہ عمل مسجد کے
منشا اور اس کی روح کے بالکل منافی ہوتا ہے ؛ چونکہ مسجد یہ تو اللہ سے براہِ راست
مانگنے کی جگہ ہے ، اس جگہ آکر بھی لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا یہ بندگی کے
لائق اور شایان شان نہیں ہے ، اس لئے شریعت نے مسجد میں آکر اس طرح دست سوال دراز
کرنے والوں کو دینے سے منع کیا ہے ، ایسے گداگروں اور سائلوں کو دینے سے ان کے اس
عمل کی تائید اور تقویت ہوتی ہے ، جو ایک امر ممنوع میں تعاون کے مرادف ہے ،
چنانچہ در مختار میںہے : ''مسجد میں سوال کرنا اور دینا مطلقا حرام ہے (در مختار
مع الرد : ٤٣٣٢) ہاں اگر کوئی واقعةً مجبور ولاچار ہو اس نے گداگری کو اپنا پیشہ
نہ بنایا ہو ، محض وقتی ضرورت کے تحت مانگ رہا ہو تو ایسے شخص کا مانگنا اور مصلیوں
کا اسے دینا ازروئے شرع درست ہے جب کہ مسجد کے حدود سے باہر رہ کر مانگا جائے ، ایسے
ہی مسجد میں کسی مدرسہ یا دینی کام کے لئے تعاون کی اپیل کی جاسکتی ہے ، حضور اکرم
انے جہاد کے موقع سے صحابہ سے امداد طلب کی ہے اور صحابہ نے حتی المقدور اپنی
اعانتیں حضور اکرم اکو پیش کی ہیں ، یا کسی شخص کی ضرورت کے لئے مسجد کے انتظامیہ
کی طرف سے اعلان ہو او رلوگ تعاون کریں تو یہ بھی درست ہے ، حضور اکرم اکا بہت سے
مفلوک الحال اور تنگ دست لوگوں کے لئے مسجد میں اعلان کرنا روایتوں میں مذکور ہے ۔
(٩) مسجد میں خرید وفروخت :مسجد
میں خرید وفروخت سے بھی احتراز کیا جائے ، نبی کریم ا نے مسجد میں خرید وفروخت کو
سختی سے منع فرمایا ہے ،آپ ا کا ارشاد گرامی ہے: جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید
وفروخت کرتے ہوئے دیکھو تو تم یوں کہو کہ اللہ عزوجل تمہاری تجارت کو نفع بخش نہ
بنائے ، جب تم کسی شخص کو مسجد میں گمشدہ سامان کا اعلان کرتے ہوئے دیکھوتو یوں
کہو کہ اللہ عزوجل تمہارا یہ سامان واپس نہ کرے (رواہ الترمذی ، مشکوة :٧٠) اس روایت
کی روشنی میں وہ لوگ اپنا اچھی طرح جائزہ لیں کہ جو مسجد میں خرید وفروخت کرتے ہیںکہ
حضور اکرم انے مسجد میں کی جانے والی اس تجارت کے غیر نفع بخش ہونے کے لئے بددعا
کا حکم فرما یا ہے ، یہ خرید وفروخت کی ممانعت کا حکم اس وقت ہے جب کہ مسجد کے
اندرونی حصہ میں جسے ''عین مسجد '' کہا جاتا ہے ، یہ معاملہ کیا جائے ، مسجد سے
متصل دوسری کھلی اراضی میں جو مصالح مسجد کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، اگر وقتی پر
کچھ چیزیں وہاں فروخت کی جائیں اور بعد نماز کے اٹھالیے جائیں تو اس طرح کا
کاروبار درست ہے ، جب کہ اس سے نمازیوں کو خلل واقع نہ ہو ، اس طرح کی عارضی دکانیں
مسجد کے انتظامیہ کی اجازت سے عرف کی بنا پر بغیر کرایہ کے لگائی جاسکتی ہیں ،
مستقل دکان لگانے کے لئے کی اجازت ضروری ہوگی (آپ کے شرعی مسائل : منصف :جولائی :٢٠٠٨)
(١٠)مسجد میں اشعار کہنا :
مسجد میں فضول اور گندے قسم کے اشعار کہے جائیں ، حضور اکرم انے مسجد میں اس طرح
کے لغویات پر مشتمل اشعار کہنے سے منع فرمایا ہے :عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے
مروی ہے کہ نبی کریم ا مسجد میں اشعار کہنے ، اس میں خرید وفروخت کرنے ، جمعہ کے
دن نماز سے پہلے حلقے لگاکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد ، ترمذی ، مشکوة :٧٠)ایک
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مسجد میں قصاص طلب کرنے ، اشعار کہنے اور حدود
نافذکرنے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد :مشکوة :٧٠)مسجد میں اس طرح کے اشعار کہنے کی
ممانعت اس وقت ہے جب کہ یہ اشعار فضولیات اور لغویات پر مبنی ہوں ، اگر مسجد میں اللہ کی حمد وثنا ، حضور اکرم ۖ کی تعریف و بسم اللہ الرحمن الرحیم
احترامِ مساجد کے منافی چند قا بل اصلاح
پہلو
مفتی
رفیع الدین حنیف قاسمی
جو مقامات اور جگہیں شریعت
کی نگاہ میںجس قدر معزز ومحترم ، فضائل ومناقب کی حامل ، خیر وبرکت کی باعث اور
اجر وثواب کی موجب ہوتی ہیں ، ان کی بے احترامی وناقدری ، بے ادبی وبے توقیری اور
ان کے عظمت وتقدس کی پامالی بھی اسی قدر سنگین ، قابلِ گرفت اور باعثِ عقاب وسزا
ہوتی ہے ، مساجد جو در اصل اس روئے زمین پر اللہ عزوجل کے گھر ہوتی ہیں ، جنہیں
ذاتِ خداوندی سے خصوصی نسبت اور تعلق ہوا کرتا ہے ، جہاں ہردم تجلیاتِ ربانی
کاورود اورانوار وبرکات کا نزول ہوتا رہتا ہے ،جو آسمانو ں کے مکینوں کے لئے اس
نقشۂ دنیا پر ایسے ہی تابناک اور روشن ہوتے ہیں جیسے زمین پر رہنے والوں کے لئے
ستارے روشن اور چمکدار ہوتے ہیں ، ان کی اہمیت وافادیت اور عظمت ورفعت کا اندازہ
اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس روئے زمین پر اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ محبوب اور
پسندیدہ جگہیں یہی ہوتی ہیں، اسی وجہ سے ان کے آباد کرنے ، ان کی نگہداشت اور دیکھ
بھال کرنے یاکسی بھی طرح سے ان سے لگاؤ اور وابستگی رکھنے والوں کے تعلق احادیث
وروایات میںمختلف انداز سے خوشخبریاں سنائی گئیں ہیں ، چنانچہ ایک روایت میں تعمیر
مسجد کو رب ذو الجلال کی رضامندی اورجنت کے اعلی وارفع محلات ودرجات کے حصول کا ذریعہ
بتلایا گیا ہے (مشکوة :٦٨)ایک دوسری روایت میں مسجد کے عظمت وتقدس کا اظہار ان
الفاظ میں کیا گیا ہے ، ''جو شخص صبح وشام بکثرت مسجد میں آمد روفت رکھتا ہو ،اس کی
ہر آنے جانے پر اللہ عزوجل اس کے لئے خصوصی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں(مشکوة:٦٨)ایک
روایت میں مسجد کے احترام وعظمت کو یوں اجاگر کیا گیا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو
کرے ، پھر مسجد کی طرف چلے تو اس کے ہر اٹھنے والے قدم پر اس کے نامۂ اعمال میں ایک
نیکی کا اضافہ ہوتا ہے اور ایک بدی کو مٹادیا جاتا ہے ( مشکوة : ٦٨) ایک روایت میں
مسجد کی عظمت شان اور اس کی شرعی حیثیت ووقار کی جانب ان انعاماتِ خداوندی اشارہ کیا
گیا ہے ، ''جو شخص مسجد کو اپنا گھر بنالے ( یعنی مسجد میں رہ کر مسجد والے اعمال
کو زندہ کرے ) اس کے بارے میں اللہ عزوجل نے یہ ذمہ لیا ہے کہ : میں اس کو راحت
دوں گا، اس پر رحمت کروں گا ، پل صراط کا راستہ اس کے لئے آسان کروں گا ، اپنی رضا
اسے نصیب کروں گا اور اسے جنت عطا کروں گا ''(مجمع الزوائد: ١٣٤٢)ایک موقع آپ ا نے
مسجد کے عظمت کے پہلو کا اظہار یوں فرمایا کہ :آپ ا نے بکثرت مسجد آنے والے کو اس
کے مومنِ کامل ہونے کی علامت قرار دیا (ترمذی ، مشکوة : ٦٩) ۔
مذکور ہ بالا روایات یا ان
جیسی دیگر کتب احادیث میں مذکور روایات میں مساجد سے خصوصی تعلق رکھنے والوں کے
بارے میں اس طرح کی جو بشارتیں اور خوش خبریاں سنائی گئی ہیں ، ان کی روشنی میں
مساجد کے عظمت وتقدس اور ان کی بلندیٔ شان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، دراصل
ان روایات کے ذکر سے مساجد کی عظمت وتقدس اور ان کے احترام وعقیدت کو امتِ مسلمہ
کے قلوب میں زندہ وتابندہ کرنا مقصود ہے ؛ تاکہ امت ان کی عظمت ورفعت کا اندازہ
لگا کر ان کی بے ادبی وبے احترامی یا کسی بھی ایسے عمل کے ارتکاب سے گریزاں ہوجو
ان کے عظمت وتقدس کو پامال کرتا ہو؛ چونکہ کسی بھی چیز کے مثبت اور ایجابی پہلو کے
ذکر سے اس کے منفی اور سلبی پہلو کی شناعت وقباحت از خود نمایاں اور اجاگر ہوجاتی
ہے ، اس لئے یہاں عظمت مساجد پر دلالت کرنے والی چند روایات کا ذکر کیا گیا ، ہم
درج ذیل سطور میں مسجد کے تقدس کے منفی چند ان اعمال کی طرف نشاندہی کرنا مناسب
سمجھتے ہیں جس میں لوگ عموما مبتلا ہیں ، ان کی برائی وقباحت قلب ودماغ سے محو
ہوچگی ہے ، ان کو نہایت معمولی اور حقیر تر سمجھا جاتا ہے ؛ حالانکہ احترام مساجد
کے منافی یہ اعمال شرعی نقطۂ نظر سے نہایت ہی خطرناک ، سنگین ، انجام سوز ، عاقبت
گداز اور ناقابل عفو ودرگذر ہیں ۔
(١) مسجد میں لایعنی باتیں
کرنا : شریعت نے مسجد کا نظام اس لئے رکھا ہے کہ اس میں وہ اعمال انجام دیئے جائیں
جو اللہ عزوجل کی عظمت وبڑائی ، اس کی بزرگی وبرتری اور اس کی توحید وربوبیت دلالت
کرنے والے ہوں ، جس کا سب سے بڑا مظہر ''نماز '' ہے ، جس میں بندہ اپنے علائق
ومشغولیات سے علاحدہ ہو کر ، پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ اپنے خالق ومالک کے
سامنے سرتاپا عجز ونیاز بن کر اس کی کبرائی اور شانِ رفعت کا اظہار اپنی نماز کے
ان مجموعی اعمال کے ذریعہ کرتا ہے ؛ لہٰذا کوئی بھی ایسا عمل جو مسجد کے مقصد ونصب
العین کے منافی ہو اس کے ارتکاب کی شرعا وہاں کس طرح گنجائش ہوسکتی ہے ، لایعنی
اور غیر ضروری باتیں بذات خود ممنوع ہیں ، پھر خصوصا ان کی مسجد میں مشغولیت نہایت
تباہ کن ، بھیانک اور غضب خداوندی کو دعوت دینے کے مرادف ہوسکتی ہے ۔لیکن عموما
لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ مسجد میں آکر مختلف حلقہ جات کی شکل میں دنیوی باتوں میں
مصروف نظر آتے ہیں ، جس میں ہر طرح کی رطب ویابس اور خشک وتر گفتگو شامل ہوتی ہے ،
کسی کی غیبت ہورہی ہے ، کسی کی توہین وتذلیل کی جارہی ہے ، کسی کا ٹھٹا اور مذاق
اڑایا جارہا ہے ، کہیں دل لگی اور مزاح وظرافت پر مشتمل جملوں کے تبادلے ہورہے ہیں
، کبھی تجارتی اور کاروباری مصروفیات کی گھتیاں سلجھائی جارہی ہیں، ہر قسم کے شور
وشرابے اورہنگامے کا بازار گرم ہے ، جیسے مسجد نہیں ہوئی ؛ بلکہ کوئی بیٹھک یا تفریح
گاہ ہوئی ، خصوصا مسلکی جھگڑوں اور مسجد کی صدارت کے تنازعے اور رسہ کشی نے تو
مسجد کو پہلوانوں کا دنگل بنادیا ہے ، اپنے کو فریق مقابل سے اچھا، سیدھا اور سچا
باور کرانے کے لئے مسجد میں ہر طرح کی اوجھی ، نامناسب اور غیر شائستہ حرکت بھی
گوارہ کر لی جاتی ہے ، بسااوقات تو نوبت گالی گلوچ ، سب وشتم سے آگے بڑھ کر ہاتھا
پائی اور مکے بازی تک پہنچ جاتی ہے ، مسجد کی اس بھیانک صورتحال کی جانب آنحضرت ا
نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی پیشین گوئی فرمادی تھی :'' ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ
دنیوی باتیں مسجد میں ہونے لگیں گی ، ان کے ساتھ نہ بیٹھنا کہ خدا کو ایسے لوگوں کی
کوئی ضرورت نہیں (مشکوة :٧١) یعنی ان کے اعمال اللہ بارگاہِ خداوندی میں شرفِ قبولیت
سے باریاب نہیں ہوتے ؛ بلکہ خدشہ تو ان کے سارے اعمال اور نیکیوں کے ضیاع کا ہے۔
نبی کریم اکا ارشاد ہے : مسجد
میں باتیں کرنا نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے (جلادیتی ہے
) (الفقہ الحنیفی فی ثوبہ الجدید : ٤١٦٥) مسجد میں بے ہودہ اور لا یعنی گفتگو کی
مذمت پر یہ روایت صریح دا ل ہے : جب کوئی شخص مسجد میں باتیں کرنے لگتا ہے تو
فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ : اے اللہ کے ولی ! خاموش ہوجا ، پھر اگر با ت کرتا ہے تو
فرشتے کہتے ہیں : اے اللہ کے دشمن! چب ہوجا، پھر اگر بات کرتا ہم تو فرشتے کہتے ہیں:
تجھ پر اللہ کی لعنت ہو ! خاموش ہو جا (کتاب المدخل :٥٥٢، بحوالہ فتاوی رحیمیہ :١٦١٢)مسجد
میں شور شرابہ اور کسی بھی قسم کی آواز کے بلند کرنے کی ممانعت پر وہ اثر بھی
دلالت کرتی ہے جو سائب بن یزید سے مروی ہے کہ جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کادو
طائف کے باشندوں کو مسجد نبوی میں محوِ گفتگو دیکھ کر یہ فرمانا منقول ہے کہ : تم
دونوں مدینے کے رہنے والے ہوتے میں تو میں تمہاری اچھی طرح گوش مالی کردیتا (بخاری
:مشکوة:٧١)اگر بقدر ضرورت دنیوی امور سے متعلق مباح گفتگو کی جائے ، اس کو مستقل
مشغلہ اور مقصد نہ بنایا جائے تو پھر اس کی اجازت ہے (رد المحتار مع الدر المختار :
٤٣٦٢، زکریا)۔
(٢) مسجد میں بدبودارچیزیں
لے آنا : سگریٹ ، بیڑی ، گٹکھا یا تمباکو
پر مشتمل دیگر اشیاء کا استعمال اس وقت عام ہوچکاہے ، لوگ تمباکو پر مشتمل ان اشیاء
کے استعمال کے بعد بے محابا مسجد میں چلے آتے ہیں ؛ حالانکہ بدبودار چیزیں کھاکر
مسجدمیں آنا شرعا منع ہے ، جب ایک سلیم الطبع اور صحیح الفطرت انسان ان اشیاء کی
بدبو کو برداشت نہیں کرسکتا تو ملائکہ جیسی نورانی نفیس اور پاکیزہ مخلوق جن کی ہر
دم مسجد میں آمد روفت رہتی ہے ان اشیاء کی بدبو کو کیسے برداشت کرے گی ؟ کیا ہم ان
کو اذیت اور تکلیف پہنچاکر ان کی بددعاؤں کے مستحق نہیں ہوجائیں گے ؟ ایسے ہی
مزدور پیشہ اور گاڑیوں کے میکانک حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ لوگ گرد وغبار ، پسینے ،
گریس ، آئیل ، پٹرول اور ڈیزل میں آلودہ کپڑوں کے ساتھ چلے آتے ہیں ، یہ حضرات خود
اپنے دل پر ہاتھ کر سوچیں کہ جب وہ لوگ ان کپڑوں کو زیب تن کر کے اپنے اعزاء
واقرباء اور دوست واحباب کے پاس جانا گوارا ہ نہیں کرتے تو یہ لوگ اللہ عزوجل کی
ذات جو کہ سب سے زیادہ لائق احترام اور باعث صد تکریم ہوتی ہے ، ان گندے او
ربدبودار ملبوسات کے ساتھ ان کی بارگاہ میں جانا کیسے گوارہ کرلیتے ہیں ؟حالانکہ
شریعت نے خصوصا ہر نماز کے وقت زیب وزینت اور آرائش کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے
، چنانچہ ارشاد فرمایا: اے ابن آدم ! ہر نماز کے وقت اپنی زینت کو اختیار کرو (الأعراف
: ٣١) یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اچھے اور پاکیزہ ملبوسات وپوشاک کی نعمت کے
استعمال کا موقع اس کی عبادت سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ اسی کی بخشی ہوئی نعمتوں
کا اثر لے کر اس کی بارگاہ میں حاضری دی جائے۔اسی طرح لہسن جیسی بدبودار اشیاء کے
استعمال کے فورا بعد مسجد میں آنے کی ممانعت روایات میں مذکور ہے : حضرت جابر رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : آپ ا نے فرمایا : جو شخص اس بدبودار درخت کو کھائے ، وہ
ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ؛ چونکہ جو چیزیں انسان کے لئے تکلیف دہ اور اذیت رساں
ہوتی ہیں ، اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے (مشکوة : ٦٩)ایک دوسری روایت میں
آنحضرت اسے ان دونوں درختوں (یعنی پیاز اور لہسن ) کے کھانے کی ممانعت منقول ہے ، یہ
آپ ا نے ارشاد فرمایا ہے کہ : کوئی ان دونوں درختوں کو کھاکر ہماری مسجد کے قریب
نہ آئے ، اگر کھانا ضروری ہو تو ان دونوں کو پکا کر کھائے (رواہ أبوداؤد ، مشکوة :
٧١) ایک دفعہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم اسے دریافت فرمایا کہ :
اے اللہ کے رسول ! کیا لہسن حرام ہے ؟ آپ ا نے فرمایا : نہیں ؛ لیکن میں اسے اس کی
بدبو سے ناپسند کرتا ہوں (ترمذی: ٣٢)مذکورہ بالاروایات سے یہ پتہ چلا کہ لہسن اور
پیاز کا استعمال فی نفسہ مکروہ نہیں ؛ بلکہ ان کی بدبو کی وجہ سے ان کے استعمال کے
بعد مسجد میں آنے سے منع کیا گیا ہے ، بیڑی ، سگریٹ ، گٹکھا اور دیگر تمباکو والی
اشیاء کا ان سے زیادہ بدبودار ، مضر صحت اور تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے ان کے
استعمال کے بعد مسجد میں آنا بدرجۂ اولی مکروہ ہوگا ( حاشیہ ترمذی : ٣٢) بلکہ ہر
ناپسندیدہ بووالی چیز کھاکر مسجد میں آنے سے منع کیا گیا ، اسی حکم میں وہ لوگ بھی
شامل ہیں جن کے منہ سے بدبو آتی ہو یا جن کو بدبودار زخم ہو ، ایسی ہی قصاب ، مچھلی
فروخت کرنے والے ، جذامی ، کوڑھی کے مرض میں مبتلا حضرات کا بھی اپنی اسی حالت میں
مسجد میں آنا منع ہے (شامی ٤٣٥٢، زکریا )
(٣) مسجد کو گندگی سے ملوث
کرنا : جہاں مسجد کی صفائی ستھرائی ، اس کی دیکھ ریکھ اور اس کی ضروریات کی تکمیل
ضروری ہے ، وہیں اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ اپنے کسی عمل سے مسجد گندگی سے ملوث
نہ ہونے پائے ، بہت سے لوگ مسجد میں آکر سر یا داڑھی میں کنگھا کرتے ہیں ، جس سے
مسجد ملوث ہوجاتی ہے ، اولا تو مسجد میں کنگھا کرنے احتراز کیا جائے ، اگر بغیر کسی
عمل کے غیر اختیاری طور پر سر یا داڑھی کے بال گر جائیں تو اسے اٹھا کر اپنے جیب میں
رکھے لے ، ایسے ہی لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ ناک آلائش اور ریزش وغیرہ کو مسجد میں
پھینک دیتے ہیں ، یا مسجد کے در ودیوار پر لگادیتے ہیں ، یا کوئی رستا ہوا زخم
ہوتو اس کے خون اور پیپ سے مسجد کے فرش کو ملوث کردیتے ہیں ، ریاح کا تقاضا ہوتو
اس کے مسجد میں اخراج سے بھی گریزنہیں کرتے ، مسجد میں اس طرح کی گندگی مچانے سے
بچائے ، ورنہ مختلف بیماریوں اور مصائب کی شکل میں اللہ عزوجل کی گرفت اور مواخذہ
کے ہم مستحق بن سکتے ہیں ، مسجد کو اس طرح گندا اور ملوث کرنے کی ممانعت پر وہ روایت
صراحتا دلالت کرتی ہے جس میں آپ ا نے اس دیہاتی سے جس نے انجانے میں مسجد میں پیشاب
کردیا تھاتو آپ ا نے اس سے یوں فرمایا تھا، یہ مساجد اس طرح پیشاب کرنے یا کسی بھی
قسم کی گندگی مچانے کے ہرگز لائق نہیں ہیں ، ان مساجد کا موضوع تو ذکرِ الٰہی ، یادِ
خداوندی ، نماز اور تلاوتِ قرآن ہے ، پھر آپ نے ایک شخص کو اس پر پانی بہانے کا
حکم فرمایا(رواہ مسلم :حیاة الصحابہ : ١٥٣٣)مسجد میں تھوکنے یا اس میں کسی بھی قسم
کی گندگی مچانے (جس میں سر یا داڑھی کے بال نوچنا، ناک یا زخم کی آلائش ، ریاح کا
خروج سب شامل ہیں) کی ممانعت وقباحت کا اندازہ درج ذیل روایات سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے کہ آپ انے فرمایا : میں نے اپنی امت کے برے اعمال میں اس تھوک کو بھی
پاپا ہے جو مسجد میں ڈالا گیا ہو پھر اسے دفن نہ کیا گیا ہو (رواہ مسلم ، مشکوة : ٦٩)آپ
نے ایک شخص کو محض اس وجہ سے منصبِ امامت سے معزول فرمادیا تھاکہ اس نے دورانِ
نماز قبلہ رخ تھوک دیا تھا ۔(رواہ ابوداؤد ، مشکوة :٧١)یہ فقہی عبارت بھی اس قسم
کے مسجد کے احترام کے منافی اعمال کے ارتکاب کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے ۔''مسجد میں
کسی ایسی نجاست کا لے آنا مکروہ ہے جس سے مسجد کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہو ، اسی
طرح مسجد میں ریاح بھی خارج نہ کرے ، اگر ریاح کے اخراج کی ضرورت درپیش ہو تو مسجد
سے باہر چلاجائے (الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:٤١٩٥)
(٤) مسجد کی تزئین اور اس
کی تعمیر میں تفاخر کی ممانعت : مسجد کی تعمیر اور اس کی تزئین میں بھی حد اعتدال
سے تجاوز نہ کیا جائے ؛ بلکہ بقدر ضرورت مسجد پختہ ، نفیس اور پر رونق بنالی جائے،
اگر عہدِ حاضر کے تعمیری معیار کو بھی پیش نظر رکھ لیا جائے تو کچھ منع نہیں ؛ لیکن
غیر معمولی تکلفات ، پھول بوٹے ، گل کاری ، نقش ونگار ، قیمتی نہایت ہی مزین قالین
اور فانوس وغیرہ کے انتظام سے گریزکیاجائے ، بہتر یہ ہے کہ مسجد کے در ودیوار سفید
ہوں ، نقش ونگار سے پاک ہوں ، ان پر کسی قسم کی تحریر نہ ہو ، تصویر اور کتابت سے
منقش کرنا مکروہ ہے (البحر الرائق :٢٥١٥) چونکہ اس طرح کی محض ظاہری زیب وزینت سے
مسجد کی رونق میں اضافہ نہیں ہوتا ؛ بلکہ اس سے مسجد کی بے احترامی ہوتی ہے ، مسجد
کی اصل زیب وزینت اس کی صفائی وستھرائی ، خوشبونیز نمازیوں کی زیادتی ، اچھے پوشاک
پہن کر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنیاور باادب بیٹھنے میں ہے ۔آج ہماری مساجد کی یہ
صورتحال ہوگئی ہے کہ وہ حسن تعمیر اور ذوق تزئین کے تو اعلیٰ وارفع معیار پرہوں گی
؛ لیکن اس کی اصل زیب وزینت یعنی اس میں مساجد والے اعمال کو زندہ کرنے کی فکر بہت
کم ہوگئی ، اسی حالت کی جانب حضور اکرم انے اس روایت اشارہ فرمایا تھاکہ : میں دیکھ
رہا ہوں کہ تم عنقریب مساجد کو اونچی بناؤگے جیسا کہ یہود ونصاری اپنے کلیسا ،
گرجا گھر اور چرچوں کو اونچابناتے ہیں (رواہ ابوداؤد : مشکوة : ٦٩) مساجد کی زیادہ
تزئین کی ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع میں
خلل واقع ہوتا ہے ، اس کی وجہ سے نمازی کی یکسوئی اور توجہ ہٹ جاتی ہے ، اس لئے
مسجد کی دیوار خصوصا محراب اورمحراب والی قبلہ کی جانب والی دیوار اور دائیں بائیں
جانب کی دیوار پر رنگین بیل بوٹے اور نقش ونگار کرنا جائز نہیں ( شامی زکریا :٤٣١٣)۔
(٥) مسجد کو بطور راستہ کے
استعمال کرنا : آج کل عموما مسجد کے دو راستے ہوتے ہیں ، بعض حضرات اپنی ضروریات
کے لئے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے ہیں یعنی مسجد
کو بطور گذرگاہ کے استعمال کرتے ہیں ، اس طرح مسجد کا بطور گذرگاہ استعمال شرعا
درست نہیں ؛ اس لئے کہ مساجد عبادت گاہ اور جائے نماز ہیں ، یہ ذکر الٰہی ، تلاوت
قرآن اور نماز کی ادائیگی کے لئے بنائے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ : ان مساجد کا موضوع تو اللہ کا ذکر ،
تلاوت قرآن اور نماز ہیں (ریاض الصالحین : ٥٩٧) لہٰذا اگر مسجد کا بطور راستہ کے
استعمال کے لئے فقہاء نے یہ شرط رکھی ہے کہ دن میں ایک دفعہ تحیة المسجد ادا کرے ،
جو شخص بغیر کسی عذر کے مسجد کو بطور گذرگاہ کے استعمال کا معمول بنانے لے تو
فقہاء نے ا س کے فاسق ہونے کی صراحت کی ہے (شامی ، زکریا : ٤٢٨٢) اس لئے مسجد کو
بطورِ گذرگاہ کے استعمال سے بچاجائے ؛ تاکہ اللہ عزوجل کی فہرست میں ہمارا شمار
کفار وفساق میں نہ ہو ۔
(٦) مسجد کو آرام گاہ
بنانا :
ایسے ہی بہت سے لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ اپنی
کاروباری مصروفیات کی تکان کو دور کرنے کے لئے مسجد میں آکر لیٹ جاتے ہیں؛ حالانکہ
ان کا نہ نماز سے کوئی واسطہ ہوتا ہے اورنہ مسجد کے دیگر اعمال سے کوئی سروکار ،
جب کہ شرعی نقطۂ نظر سے مسجد میں معتکف ، مسافر ، یا ایسا مقامی آدمی ہی ہوسکتا
ہے جو اعتکاف کی نیت سے نماز کے انتظار میں سورہا ہو، ان لوگوںکے لئے بھی ضروری ہے
کہ آدابِ مساجد کا خصوصی خیال رکھیں، سونے میں ایسی ہیئت اور شکل اختیار نہ کریں
جو مسجد کے احترام کے منافی ہو ، ورنہ محض اپنی اکتاہٹ اور سستی کے دور کر نے کے
لئے مسجد میں آرام کر لینا یہ عمل شرعا درست نہیں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ
ارشاد اس طرح مسجد کو آرام گاہ بنانے کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے ، خلید بن اسحاق
سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے مسجد میں سونے کے متعلق دریافت
کیا تو انہوں نے فرمایا : اگر یہ تیرا سونا نماز یا طواف کے لئے ہوتو کوئی حرج نہیں
(حیاة الصحابہ : ١٦١٣)''ویکرہ نومہ وأکلہ لا لمعتکف وغریب '' (شامی زکریا : ٤٣٥٢)
مسافر اور معتکف کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے مسجد میں کھانا اور سونا مکروہ ہے
۔اگر کوئی سونا ہی چاہتا ہوتو اسے چاہئے کہ وہ لوگ اعتکاف کی نیت کر کے مسجد میں
داخل ہوں جس قدر ہوسکے ذکر وشغل میں مصروف ہو یا نماز پڑھے ، پھر جو چاہے کرے ۔(شامی
:٣٥٢)
(٧) مسجد میں اپنے لئے جگہ
مخصوص کرلینا : بعض مساجد میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ مصلی جو نماز کے پابند ہوتے ہیں
، مسجد میں اپنے لئے جگہ مخصوص کر لیتے ہیں ، اپنی متعینہ جگہ میں ہی وہ لوگ نماز
پڑھتے ہیں ، اگر کوئی دوسرا شخص اس جگہ آکر بیٹھ جاتا ہے تو اسے اس جگہ سے اٹھادیتے
ہیں ؛ حالانکہ اس طرح سے اپنے لئے جگہ مخصوص کر لینااور دوسرے کو اس جگہ بیٹھنے پر
بیٹھنے سے اسے اٹھادینا ، اس طرح کا عمل درست نہیں ، چونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے
،جس میں تمام مسلمانوں کا برابر حق ہے ؛ بلکہ مسجد کے بانی یا متولی کے لئے بھی
اجازت نہیں کہ وہ مسجد میں کسی کے آنے سے روک دے ؛ چونکہ اس طرح کا یہ عمل کسی کو
مسجد میں آنے سے روک دینے کے مشابہ ہے اور کسی کو مسجد میں آنے سے روک دینے والے
کو اللہ عزوجل سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے ، ''اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو
مسجد میں ذکر الٰہی سے منع کرے ''(البقرة : ٥ے١١٤) چنانچہ در مختار میں ہے :'' اپنے
لئے جگہ مخصوص کر لینا مکروہ ہے ، پھر اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے شخص کو
زبردستی وہاں سے اٹھادے ، اگر چہ وہ مدرس ہی کیوں نہ ہو؛ اس لئے کہ مسجد کسی کی
ملک نہیں ہوتی ( در مع الشامی : ٤٣٦٥) یعنی اگر کوئی شخص کسی خاص جگہ درس دیتا ہو
، کسی دن ا س جگہ دوسرا شخص آکر درس دے تو پہلے شخص کے لئے یہ اجازت نہیں کہ وہ اس
شخص کو وہاں سے زبردستی اٹھائے ، ان فقہی عبارات کی روشنی میں یہ پتہ چلا کہ کسی
کا مسجد میں اپنے لئے جگہ مخصوص کرلینا درست نہیں۔
(٨) مسجد میں بھیک مانگنے
اور دینے کی ممانعت : بہت سے مرد وخواتین کو دیکھاجاتا ہے کہ مسجد کے اندر آکر
نمازیوں سے بھیک مانگتے ہیں؛حالانکہ مسجد میں آکر بھیک مانگنے کا یہ عمل مسجد کے
منشا اور اس کی روح کے بالکل منافی ہوتا ہے ؛ چونکہ مسجد یہ تو اللہ سے براہِ راست
مانگنے کی جگہ ہے ، اس جگہ آکر بھی لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا یہ بندگی کے
لائق اور شایان شان نہیں ہے ، اس لئے شریعت نے مسجد میں آکر اس طرح دست سوال دراز
کرنے والوں کو دینے سے منع کیا ہے ، ایسے گداگروں اور سائلوں کو دینے سے ان کے اس
عمل کی تائید اور تقویت ہوتی ہے ، جو ایک امر ممنوع میں تعاون کے مرادف ہے ،
چنانچہ در مختار میںہے : ''مسجد میں سوال کرنا اور دینا مطلقا حرام ہے (در مختار
مع الرد : ٤٣٣٢) ہاں اگر کوئی واقعةً مجبور ولاچار ہو اس نے گداگری کو اپنا پیشہ
نہ بنایا ہو ، محض وقتی ضرورت کے تحت مانگ رہا ہو تو ایسے شخص کا مانگنا اور مصلیوں
کا اسے دینا ازروئے شرع درست ہے جب کہ مسجد کے حدود سے باہر رہ کر مانگا جائے ، ایسے
ہی مسجد میں کسی مدرسہ یا دینی کام کے لئے تعاون کی اپیل کی جاسکتی ہے ، حضور اکرم
انے جہاد کے موقع سے صحابہ سے امداد طلب کی ہے اور صحابہ نے حتی المقدور اپنی
اعانتیں حضور اکرم اکو پیش کی ہیں ، یا کسی شخص کی ضرورت کے لئے مسجد کے انتظامیہ
کی طرف سے اعلان ہو او رلوگ تعاون کریں تو یہ بھی درست ہے ، حضور اکرم اکا بہت سے
مفلوک الحال اور تنگ دست لوگوں کے لئے مسجد میں اعلان کرنا روایتوں میں مذکور ہے ۔
(٩) مسجد میں خرید وفروخت :مسجد
میں خرید وفروخت سے بھی احتراز کیا جائے ، نبی کریم ا نے مسجد میں خرید وفروخت کو
سختی سے منع فرمایا ہے ،آپ ا کا ارشاد گرامی ہے: جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید
وفروخت کرتے ہوئے دیکھو تو تم یوں کہو کہ اللہ عزوجل تمہاری تجارت کو نفع بخش نہ
بنائے ، جب تم کسی شخص کو مسجد میں گمشدہ سامان کا اعلان کرتے ہوئے دیکھوتو یوں
کہو کہ اللہ عزوجل تمہارا یہ سامان واپس نہ کرے (رواہ الترمذی ، مشکوة :٧٠) اس روایت
کی روشنی میں وہ لوگ اپنا اچھی طرح جائزہ لیں کہ جو مسجد میں خرید وفروخت کرتے ہیںکہ
حضور اکرم انے مسجد میں کی جانے والی اس تجارت کے غیر نفع بخش ہونے کے لئے بددعا
کا حکم فرما یا ہے ، یہ خرید وفروخت کی ممانعت کا حکم اس وقت ہے جب کہ مسجد کے
اندرونی حصہ میں جسے ''عین مسجد '' کہا جاتا ہے ، یہ معاملہ کیا جائے ، مسجد سے
متصل دوسری کھلی اراضی میں جو مصالح مسجد کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، اگر وقتی پر
کچھ چیزیں وہاں فروخت کی جائیں اور بعد نماز کے اٹھالیے جائیں تو اس طرح کا
کاروبار درست ہے ، جب کہ اس سے نمازیوں کو خلل واقع نہ ہو ، اس طرح کی عارضی دکانیں
مسجد کے انتظامیہ کی اجازت سے عرف کی بنا پر بغیر کرایہ کے لگائی جاسکتی ہیں ،
مستقل دکان لگانے کے لئے کی اجازت ضروری ہوگی (آپ کے شرعی مسائل : منصف :جولائی :٢٠٠٨)
(١٠)مسجد میں اشعار کہنا :
مسجد میں فضول اور گندے قسم کے اشعار کہے جائیں ، حضور اکرم انے مسجد میں اس طرح
کے لغویات پر مشتمل اشعار کہنے سے منع فرمایا ہے :عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے
مروی ہے کہ نبی کریم ا مسجد میں اشعار کہنے ، اس میں خرید وفروخت کرنے ، جمعہ کے
دن نماز سے پہلے حلقے لگاکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد ، ترمذی ، مشکوة :٧٠)ایک
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مسجد میں قصاص طلب کرنے ، اشعار کہنے اور حدود
نافذکرنے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد :مشکوة :٧٠)مسجد میں اس طرح کے اشعار کہنے کی
ممانعت اس وقت ہے جب کہ یہ اشعار فضولیات اور لغویات پر مبنی ہوں ، اگر مسجد میں اللہ کی حمد وثنا ، حضور اکرم ۖ کی تعریف ومنقبت ، نیکی کی
ترغیب ، کفر کی مذمت ، گناہ کی برائی یاکافر اسلام کی ہجو پر مشتمل اشعار کہیں جائیں
تو اس کی اجازت ہے ۔چنانچہ آنحضرت اکا حضرت حسان بن ثابت کے لئے مسجد میں منبر
رکھنا منقول ہے ، جس پر ٹھہر کر وہ حضور اکرم اکی تعریف ومنقبت اور کفار کی جانب
سے آپ کا دفاع اور ان کی ہجو پر مشتمل اشعار کہا کرتے تھے ۔(مشکوة : ٤١٠، شامی :٤٣٤٢)۔
مسجد کے احترام کے منافی یہ
وہ چند قابل اصلاح پہلو ہیں جن کی طر ف توجہ دینے کی خصوصی ضرورت ہے ، اگر ہم نے
ان مذکورہ پہلوؤں پر اپنی توجہ مبذول نہ کی ، احترام مساجد کے منافی ان اعمال کے
مرتکب ہوتے رہے تو ہم عقاب خداوندی اور پکڑ کے مستحق ہو سکتے ہیں ، اب بھی وقت ہے
کہ مسجد کے ادب واحترام کے منافی ان اعمال کے انجام دہی سے رک جائیں ؛ تاکہ اللہ کی
رحمت خصوصی طور سے ہم پر متوجہ ہو ، مسجد کے انوار وبرکات سے ہم صحیح طور پر مستفید
ہوسکیں اور مسجد سے وابستگی اور تعلق رکھنے والوں کے تعلق سے جو بشارتیں اور وعدے
اللہ اور امن کے رسول انے ہمیں سنائے ہیں ، اس کے ہم حقدار بن سکیں ، اللہ عزوجل
سے دعا ہے کہ ہمیں مساجد کے صحیح احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو کوتاہیاں
اور لغزشیں ہورہی ہیں اسے اپنی مہربانی سے معاف فرمائے ۔آمین۔
منقبت ، نیکی کی
ترغیب ، کفر کی مذمت ، گناہ کی برائی یاکافر اسلام کی ہجو پر مشتمل اشعار کہیں جائیں
تو اس کی اجازت ہے ۔چنانچہ آنحضرت اکا حضرت حسان بن ثابت کے لئے مسجد میں منبر
رکھنا منقول ہے ، جس پر ٹھہر کر وہ حضور اکرم اکی تعریف ومنقبت اور کفار کی جانب
سے آپ کا دفاع اور ان کی ہجو پر مشتمل اشعار کہا کرتے تھے ۔(مشکوة : ٤١٠، شامی :٤٣٤٢)۔
مسجد کے احترام کے منافی یہ
وہ چند قابل اصلاح پہلو ہیں جن کی طر ف توجہ دینے کی خصوصی ضرورت ہے ، اگر ہم نے
ان مذکورہ پہلوؤں پر اپنی توجہ مبذول نہ کی ، احترام مساجد کے منافی ان اعمال کے
مرتکب ہوتے رہے تو ہم عقاب خداوندی اور پکڑ کے مستحق ہو سکتے ہیں ، اب بھی وقت ہے
کہ مسجد کے ادب واحترام کے منافی ان اعمال کے انجام دہی سے رک جائیں ؛ تاکہ اللہ کی
رحمت خصوصی طور سے ہم پر متوجہ ہو ، مسجد کے انوار وبرکات سے ہم صحیح طور پر مستفید
ہوسکیں اور مسجد سے وابستگی اور تعلق رکھنے والوں کے تعلق سے جو بشارتیں اور وعدے
اللہ اور امن کے رسول انے ہمیں سنائے ہیں ، اس کے ہم حقدار بن سکیں ، اللہ عزوجل
سے دعا ہے کہ ہمیں مساجد کے صحیح احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو کوتاہیاں
اور لغزشیں ہورہی ہیں اسے اپنی مہربانی سے معاف فرمائے ۔آمین۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل، MOLANA GAYAS AHNMED RASHAdI
مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل رفيع الدين حنيف قاسمي، اداره علم وعرفان ، حيدرآباد در نایاب، یگانہ روزگار ، ممتازفعال، مت...
-
بسم اللہ الرحمن الرحیم احترامِ مساجد کے منافی چند قا بل اصلاح پہلو ...
-
مجلة الداعي الشهرية الصادرة عن دار العلوم ديوبند ، شعبان 1437 هـ = مايو – يونيو 2016م ، العدد : 8 ، السنة : 40 الأدب الإسلامي ا...