Saturday 13 February 2016

mosam e garma our pani pelane ki fazeelat by mufti rafiuddin haneef qasmi موسم گرماـ اور پانی پلانے کی فضیلت ، از مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

موسمِ گرما ـاور پانی پلانے کی فضیلت
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
 وادی مصطفی شاہین نگر ،حیدرآباد۔
09550081116
                             rafihaneef90@gmail.com



موسمِ گرما کی آمد آمد ہے ، ایسے میں انسان کو پیاس شدت سے لگتی ہے ، اس موقع سے بلا لحاظِ مذہب وملت کے بہت ساریہمدرد ، بہی خواہ ، رفاہی اور عوامی خدمات پر ایقان رکھنے والے ، مخلوقِ خدا کی خدمت کی شوقین وشیدا مختلف مقامات اور بازاروں ، چوراہوں اور گلی نکڑوں پر پانی پلانے کانظم کرتے ہیں ، آبدار خانے قائم کرتے ہیں ،اس عمل کے تعلق سے ہمت افزائی کی جانی چاہئے ، اور لوگوں کو اس کی ترغیب دی جانی چاہئے ، اور یہ عمل نہایت ثواب اور فضیلت کا حامل ہے پھر کیوں کر رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ترغیب نہ دیتے ؟ اسلام جیسا انسانیت کابہی خواہ ، اور انسانیت کا پاسدار مذہب اس کی تعلیمات سے کیسے پہلو تہی کرتا؟ چنانچہ رسول اللہ ۖ کے ارشادات میں اسکی اہمیت وافادیت زوردیا گیا ہے ، یہ عمل اس کے بظاہر نہایت معمولی ہونے کے باوجود نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔میں نے شہر حیدرآباد میں دیکھا ہے بعض غیر مسلم تنظیموں کی طرف سے بھی بڑے پیمانے پر موسم گرما میں پانی پلانے کا نظم بڑے تزک واہتمام سے ہوتا ہے ۔ہم تو اس نبی کی امتی ہیں جن کا ایقان یہ ہے کہ اللہ کے راہ میں خرچ کرنا در اصل یہ اللہ کے خزانے میں اپنے لئے بطورِ ذخیرۂ آخرت کے اکٹھا کرنا ہے ۔، شہر کے سلم گلیوں میں گرما کے موسم سے پانی کے لئے لوگ ترس جاتے ہیں ، ایسے جب کہ بورویل وغیرہ بھی سوکھ جاتے ہیں ، اس طرح کی سلم اور غریبوں سے معمور بستیوں میں بھی پانی کی ٹینکروں کے ذریعے آبرسانی کی خدمت میں شامل ہونا اور اپنے اور اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے پانی کا نظم کرنا یہ مرحومین کے لئے ثواب جاریہ کا ذریعہ ہوسکتا ہے ۔یہ تو انسان ہیں،نبی کریم ۖ کے ارشادات میں جانوروں تک کے لئے پانی کے نظم کرنے پر اجر وثواب اور جنت کی بشارتیں سنائی گئیں ہیں ۔
پانی پلانا ـ ثوابِ جاریہ
پانی پلانی کو احادیث نبویہ میں صدقۂ جاریہ فرمایا گیاہے ، جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتارہتا ہے ، کنویں ، بوریل، ٹانکی وغیرہ کی شکل میں غریبوں اور ناداروں کے لئے پانی کا نظم کرنا یہ مرحومین کے ایصال ثواب اور ان کے اجرِ آخرت اور صدقہ جاریہ ہوسکتا ہے ۔
سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ۖ سے عرض کیا: اللہ کے رسول : میری والدہ وفات پاگئی ہیں اوران کی طرف سے کونسا صدقہ افضل رہے گا؟ اللہ کے رسول اللہ ۖ نے فرمایا: پانی کا صدقہ، چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوا کر وقف کردیا اور کہا یہ سعد کی والدہ کے ثواب کے لئے ہے '' فحفر بئرا وقال : ھذہ لأم سعد'' (ابوداؤد: باب فی فضل سقی المائ، حدیث:١٦٨٣)۔
پانی پلانا بہترین صدقہ ہے 
پانی پلانے اور پیاسوں کی سیرابی کا عمل یہ ایک نہایت بہترین صدقہ ہے ، جس کی احادیث میں ترغیب دی گئی ہے۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:''بہترین صدقہ پانی پلانا ہے ، کیا تم نے جہنمیوں کے اس قول کو نہیں سناجب انہوں نے اہل جنت سے مدد چاہی او ران لوگوں نے کہا:''أَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَائِ أَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ'' ہم پر تھوڑا سا پانی بہا دو ،یا کچھ اس چیز میں سے دو جو تمہیں اللہ نے رزق دیا ہے(مسند ابی یعلی، مسند ابن عباس، حدیث: ٦٢٧٣) ۔
اورایک روایت میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖنے ان سے فرمایا: اے سعد! کیا میں تمہیں ایسا ہلکا صدقہ جس میں بوجھ بالکل کم ہو نہ بتاؤں؟ فرمایا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! فرمایا: ''سقی المائ'' پانی پلانا، چنانچہ حضرت سعد نے پانی پلایا۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث:٥٢٤٧)
پانی پلانا ـمغفرت وبخشش کا باعث:
پانی پلانے کا عمل نہایت معمولی ہونے کے باوجود ، ثواب اور اجر آخرت اور رضائے خداوندی اور خوشنودی رب کا نہایت بڑا ذریعہ، روزِ آخرت بخش اور مغفرت کا باعث ہوتا ہے ،صرف اسی عمل کی وجہ سے انسان جہنم سے خلاصی حاصل کر کے جنت کا مستحق ہوسکتا ہے ، اسی کوحدیث میں یوں فرمایا گیا:
ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی چل رہا تھا، اسی دوران میں اسے پیاس لگی وہ ایک کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا، کنویں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس نے کہا کہ اس کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہوگی جیسی مجھے لگی تھی، چنانچہ اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا پھر اس کو منہ سے پکڑا پھر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ نے اس کی نیکی قبول کی، اور اس کو بخش دیا، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا چوپائے میں بھی ہمارے لئے اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر تر جگر والے یعنی جاندار میں ثواب ہے'' فی کل کبد رطبة أجر''(بخاری: باب فضل سقی المائ: حدیث: ٢٢٣٤،)۔
دنیا کے پانی کے بدلے جنت کی شراب:
دنیا میں پانی پلانے اور انسانوں اور جانوروں وغیرہ کا سیراب اور ان کی تشنگی کا سامان کرنے کا اجر وثواب اس قدر ہے کہ اس پانی پلانے کے عوض اللہ عزوجل روز قیامت اور یومِ آخرت اس شخص کو اس پانی کے بدلے جنت کی شراب مرحمت فرمائیں گے چنانچہ حدیث میں آیا ہے  :
 حضرت ابوسعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان کسی ننگے کو کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالی اس کو جنت کا ہرا لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے کو کھانا کھلائے تو اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل کھلائے گا، اور جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائے تو اس کو اللہ تعالی جنت کی شراب پلائے گا۔'' وأیما مسلم سقی مسلمان علی ظمأ سقاہ اللہ من الرحیق المختوم''(ابوداؤد: باب فی فضل سقی الماء ، حدیث: ١٦٨٤)
جنت سے قریب اور جہنم سے دور کرنے والا عمل:
انسانوں کی تشنگی کا سامان کرنا اور ان کو پانی پلانا اور شدت پیاس میں ان کو سیراب کرنایہ ایساعمل ہے جس کو جنت سے قربت اور جہنم سے دوری کاباعث بتلایا گیا ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسا عمل بتلادیئجے جو مجھے اللہ عزوجل کی اطاعت سے قریب اور جہنم سے دور کردے ، فرمایا: کیا تم ان دونوں پر عمل کرو گے ؟ تو اس نے کہا : ہاں ، تو آپ ۖ نے فرمایا: انصاف کی بات کہو اور زائد کو دوسروں کو مرحمت کردو، فرمایا: اللہ کی قسم ! میں نہ تو انصاف کی بات کرسکتا ہوں اور نہ زائد چیز کسی کو دے سکتا ہوں ، فرمایا: کھانا کھلاؤں اور سلام کرو، اس نے کہا : یہ بھی مشکل ہے ، فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں، اس نے کہا:ہاں، تو آپ ۖ نے فرمایا: اپنے ایک اونٹنی اور ایک مشکیزہ لو، پھر ان لوگوں کے گھر جاؤ جن کو کبھی کبھی ملتا ہے ، انہیں پانی پلاؤ، شاید کہ تمہاری اونٹنی ہلاک ہواور تمہارے مشکیزہ پھٹ جائے اس سے پہلے تمہارے لئے جنت واجب ہوجائے گی، راوی کہتے ہیں کہ : وہ دیہاتی تکبیر کہتا ہوا چلا، کہتے ہیں : اس کے مشکیزہ سے کے پھٹنے اور اور اس کی اونٹنی کے ہلاک ہونے سے پہلے وہ شہادت کی موت مرا '' فما انخرق سقاء ہ ولا ہلک بعیرہ حتی قتل شھیدا''(السنن الکبری للبیہقی، باب ما ورد فی سقی المائ، حدیث: ٧٥٩٨)
جانوروں کو سیراب کا  بھی ثواب کا باعث:
اتنا ہی نہیں انسانی کی تشنگی کا سامان کرنے پر ہی انسان کو ثواب ملتا ہے ؛ بلکہ کسی پیاسے اور سسکتے بلتے اور پیاس کی شدت سے تڑپتے ہوئے جانور کے لئے پانی پلانے اور اور اس کی سیرابی کا سامان کرنے پر اجر وثواب کاوعدہ کیا گیا ہے چنانچہ ایک روایت میں  سراقہ بن مالک بن جعشم سے مروی ہے
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حاضر خدمت ہوا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کر دیئے، حتی کہ میرے پاس سوالات ختم ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور یاد کرلو، ان سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) وہ بھٹکے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ جبکہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔'' نعم فی الکبد الحراء أجر'' (مسند احمد، حدیث سراقة بن جعشم، حدیث: ١٧٦٢٤)
الغرض یہ کہ پیاسوں کو پانی پلانا، تشنہ لبوں کی سیراب کاسامان کرنا، انسانی کی پانی کی ضروریات کی تکمیل یہ نہایت اجر وثواب اور بلندی درجات کا باعث ہے، نہ صرف انسانوں کو پانی پلانا یہ اجر وثواب آخرت اور رضائے خداوندی اور دخول جنت کا ذریعہ کا ہے ؛ بلکہ پیاسے جانوروں کے لئے پانی کانظم کرنا یہ بھی ثواب اور اجر آخرت کا باعث ہے ۔


مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل، MOLANA GAYAS AHNMED RASHAdI

  مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل رفيع الدين حنيف قاسمي، اداره علم وعرفان ، حيدرآباد در نایاب، یگانہ روزگار ، ممتازفعال، مت...