Tuesday 23 June 2015

بسم اللہ الرحمن الرحیم
روزہ خوشنودی رب کا ذریعہ
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، وادی مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com


 رمضان کی مخصوص عبادتوں میں سب سے اہم اور جامع عبادت ''روزہ '' ہے ، وقت سحر کے ختم سے لے کر غروب
 آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام روزہ ہے ، رمضان المبارک کی پہچان ہی ''روزہ'' کی عبادت سے ہے ، اللہ عزو جل نے قرآن کریم میں اس مہینہ کا تعارف نزول قرآن کے مہینہ سے فرمانے کے بعد فرمایا کہ جو شخص اس ماہ کو پائے وہ روزہ رکھے '' فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ''(البقرة:١٨٥)روزہ کو دوسری عبادتوں پر فضیلت خصوصی طور پر اس لئے حاصل ہے کہ دیگر عبادات میں ریاء کاری ، دکھاوا ممکن ہے اور روزہ تو محض امور ثلاثہ سے نیت کے ساتھ رکے رہنے کا نام ہے ، اس میں کوئی عمل نہیں ہوتا کہ اس کا اظہار وافشاء کیا جائے۔اس کو لوگوںکو بتایا اور دکھلایا جائے۔
روزہ کا کوئی مثل نہیںہے
احادیث مبارکہ میں روزہ کی اہمیت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ اس کا کوئی مثل اور بدل نہیں ہے ، یہ بالکل بے مثال اوربے بدل اور نہایت فضیلت والی عبادت ہے ۔
 حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کر لو کیونکہ روزے جیسا کوئی عمل نہیں ہے۔(مسند احمد: حدیث أبی امامة، حدیث:٢٢٢٢١)اور اگر دن کے وقت ان کے گھر سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے یہاں کوئی مہمان آیا ہے۔یہاں ''فنہ لا مثل لہ'' کے الفاظ استعمال ہوئے ہیںاور بعض جگہوں پر ''فنہ لا بدل لہ'' کے الفاظ آئے ہیں ۔
روزہ کا بدلہ خود باری تعالی عنایت کرتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، میری وجہ سے وہ اپنی خواہش کو اور کھانے اور پینے کو چھوڑتا ہے، اور روزہ ڈھال ہے اور روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی جس وقت روزہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی جس وقت اپنے رب سے ملاقات کرے گا، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔
اور ایک روایت میں ہے :روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، جب افطار کرتا ہے۔ تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے سبب سے خوش ہوگا۔(بخاری: باب ھل یقول نی صائم ذا شتم، حدیث:٥٠٨١)
ایک دوسری روایت میں ہے: روزہ دار میری خاطر اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے لہذا اس کا روزہ میری وجہ سے ہوا اس لئے بدلہ بھی میں خود ہی دوں گا ہر نیکی دس گنا بڑھا دی جاتی ہے اور سات سو گنا تک چلی جاتی ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
''روزہ کا بدلہ میں ہی دوں گا''اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ دیگر اعمال کی طرح روزہ میں ریاء کاری نہیں ہوسکتی، اس لئے یہ عمل خالص میرے لئے ہو ا۔اس کا ایک مطلب علامہ حجر نے یہ بیان کیا ہے کہ: یعنی روزے کے ثواب کی مقدار اور اس کے نیکیوں کے اضافہ کو میں ہی جانتا ہو، دیگر عبادات کے ثوابات بعض لوگوں کو معلوم ہیں۔علامہ قرطبی فرماتے ہیں: اعمال کے ثواب کی مقدار کا لوگو ں کو علم ہے اور یہ ثواب دس گناہ سے سات سو گناہ تک بڑھایا جاتاہے سوائے روزے کے کہ اس کا ثواب بغیر تعیین مقدار کے اللہ عزوجل عنایت کریں گے۔اسی کو اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں فرمایا: ''نمایوفی الصابرون أجرہم بغیر حساب''(الزمر:١٠)(فتح الباری)علامہ مناوی فیض القدیر میں فرماتے ہیں: ''میں ہی اس کا بدلہ دوں گا) اسے بدلہ اور ثواب کی کثرت کو بتلانا ہے کہ چونکہ جب سخی اور داتا بلا کسی واسطی کے خود ہی دے تو اس عطا اور داد ودہش کی سرعت اور عظمت کا تقاضا کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ روزہ یہ اللہ عزوجل کی صفت سے تعلق رکھتا ہے ، جس میں کھانا ، پینا اور ترک شہوات ہے ۔
روزہ کے عمل سے حقوق العباد ادا نہیں کئے جائیںگے:
مطلب یہ ہے کہ اگر بندے نے حقوق العباد کو ضائع کئے ہوں، چوری کی ، زنا کیا، کسی پر ظلم وزیادتی ، گالی گلوچ،غیبت ، چغلی، حسدوغیرہ کیا تو اس کے اعمال سے بندوں کے حقوق ادا کئے جائیںسوائے روزہ کے وہ بندے کے نامہ اعمال میں خالص اس کے لئے رہے گا، اس سے حقوق العباد کی ادائیگی نہ ہوگی ۔بلکہ روزہ کا عمل اس کا ثواب اس کو پورا پورا دیا جائے اور یہ اس کے دخول جنت کا سبب ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارشاد باری تعالی ہے روزہ کے علاوہ ہر عمل کا کفارہ ہے روزہ خاص میرے لیے ہیں اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا، روزہ دار کے منہ کی بھبک اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے(بخاری: باب لکل عمل کفارة،حدیث:٧١٠٠)
روزے داروں کے لئے مخصوص دروازہ:
اللہ عزوجل نے دخولِ جنت کے لئے روزہ داریوں کے لئے مخصوص دروازہ بنوایا ہے ، جس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوسکے گے ، روزے داروں کے لئے روزِ قیامت یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہوگا۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان رکھا گیا اور اس دروازے سے صرف روزہ داروں کا داخلہ ہی ہو سکے گا۔(بخاری: باب صفة أبواب الجنة،حدیث:٣٠٨٤)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دار ہی داخل ہوں گے کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا، کہا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا اور اس میں کوئی داخل نہ ہوگا۔(بخاری: باب الریان للصائمین، حدیث:١٧٩٧) ترمذی کی روایت میں ہے :'' ومن دخلہ لم یظمأ أبدا''(ترمذی: فضل الصوم، حدیث: ٧٦٥)جو اس میں داخل ہوگا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔
روزہ روزِ قیامت سفارش کرے گا:
روزہ یہ روزِ قیامت بندہ کی سفارش کرے اور اس کی سفارش قبول کی جائے اور وہ جنت میں داخل کیا جائے گا۔
 حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔(مسنداحمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، حدیث:٦٦٢٦)
روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی:
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی عادل حکمران، روزہ دار تا آنکہ روزہ کھول لے اور مظلوم کی بددعا وہ بادلوں پر سوار ہو کر جاتی ہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالی فرماتے ہیں مجھے اپنی عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا خواہ کچھ دیر بعد ہی کروں۔(سنن ابن ماجة: باب فی الصائم لا ترد دعوتہ، حدیث:١٧٥٢)
روزہ دارمنہ کی خوشبو مشک سے بہتر:
روزہ دار کی ایک خصوصیت اور ان کا ایک امتیازیہ ہے کہ روزہ دار کے روزہ کی حالت میں معدہ کے خالی ہونے سے جو بو اس کے منہ سے آئیں گے وہ عند اللہ مشک کی خوشبو سے بہتر شمار کی گئی ہے ۔
اس حوالے سے نبی کریم کا ارشاد ہے کہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ ارشادباری تعالی ہے روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ بھی میں خود ہی دوں گا روزہ دار کے منہ کی بھبک اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے۔(بخاری: باب ما یذکر فی المسک،حدیث:٥٥٨٣)
روزہ جہنم سے ڈھال ہے :
روزہ کو جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ، یہ جس طرح انسان جنگ اور قتال کے موقع سے ڈھال سے دشمن کے وار سے بچاؤ کرتا ہے ، اسی طرح روزہ یہ انسان کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال ہے جس سے انسان جہنم سے اپنا بچاؤ کرتا ہے اور وہ روزہ خاص میرے لئے ہے لہذا اس کا بدلہ بھی میں ہی دوں گا۔(مسند احمد: مسند أبی ہریرة، حدیث:٩٣٦٢) علامہ مناوی اس کی تشریح میں فرماتے ہیں ، روزہ دنیا میں شہوات کو توڑنے اور اعضاء وجوارح کی حفاظت کی وجہ سے گناہوں اور معاصی سے بچاؤ اور آخرت میں دوزخ چھٹکارے کی وجہ ہے ۔(فیض القدیر)
ان احادیث کی روشنی میں روزہ کی فضیلت اوراس کے مقام کا علم ہوتا ہے کہ روزہ رضا رب کا ذریعہ اور خوشنودی رب کے حصول کا وسیلہ ہے ۔


















Saturday 13 June 2015

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ماہِ رمضان ـ فضائل وبرکات
                    مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، وادی مصطفی ، شاہین نگر، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com                                                  
رمضان رمض(بمعنی جلنا) سے ماخوذ ہے ، چونکہ یہ مہینہ بھی گناہوں کو جلادیتا ہے ، اس لئے اس کو ماہِ رمضان کہتے ہیں، یا رمضان رمض بمعنی(زمین کی گرمی سے پاؤں کا جلنا) سے ماخوذ ہے ،چونکہ ماہ رمضان بھی تکلیف نفس اور جلن کا سبب ہوتا ہے ، اس لئے اس کو رمضان کہتے ہیں۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ، یہ مہینہ ایک مسلمان کے لئے نہایت برکت وفضیلت کا حامل مہینہ ہے ، اس کی بے شمار خیر وخوبیاں اور بے حساب فضائل ومناقب ہیں، یہ مہینہ ایک مومن کے لئے گناہوں کی بخشش ومغفرت اور نیکیوں اور بھلائیوں کے حصول اور رضائِ رب کے جویا اور متلاشی کے لئے گویا ایک سیزن اور اللہ کو راضی کرنے اور منوانے اور اپنے گناہوں کے دھلوانے اور اس کے بخشوانے کا بہترین موقع ہے۔اس ماہ میں اللہ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے ، مغفرت کا پروانہ ملتا ہے اور جہنم کی آگ سے آزادی ملتی ہے ، خیرکے طلبگار آگے بڑھتے ہیں ،شر کے متلاشی پیچھے ہٹائے جاتے ہیں، ہر عبادت کا ثواب بڑھادیا جاتا ہے ، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب سترفرضوں کے مقدار میں عطا کیا جاتا ہے ۔مومنوں کے لئے جنت سجائی جاتی ہے۔
رمضان کی فضیلت:
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیںمیں نے رسول اکرم ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کی حقیقت کیا ہے تو میری یہ امت تمنا کرے گی کہ سارا سال رمضان ہوجائے پھر (قبیلہ خزاعہ) کے ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! (رمضان کے بارے میں ) ہمیں کچھ بتلائیے، آپ نے ارشاد فرمایا: رمضان المبارک کے لئے جنت شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے ، جب رمضان شریف کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش(الٰہی) کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے ، جس سے جنت کے درختوں کے پتے ہلتے ( اور بجنے ) لگتے ہیں اور حور عین عرض کرتی ہیں ، اے ہمار ے رب ! اس مبارک مہینے میں ہمارے لئے اپنے بندوں میں سے کجھ شوہر مقرر کردیجئے جن سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریںاور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔
اس کے بعد آپ ۖ نے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کا روزہ رکھے مگر یہ بات ہے کہ اس کی شادی ایسی حور سے کردی جاتی ہے جو ایک ہی موتی سے بنے ہوئے خیمے میں ہوتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں فرمایا ہے:''حور مقصورات فی الخیام''(الرحمن:٧٢) (خیموں میں رکی رہنے والی حوریں) اور ان عورتوں میں سے ہر عورت کے جسم پر ستر قسم کے لباس ہوں گے ، جن میں سے ہر لباس کا رنگ دوسرے لباس سے مختلف ہوگا اور انہیں ستر قسم کی خوشبو دی جائے گی ، جن میں سے ہر خوشبو کا انداز دوسرے سے مختلف ہوگا، اور ان میں سے ہر عورت کی (خدمت اور) ضرورت کے لئے ستر ہزار نوکرانیاں اور ستر ہزار خادم ہوں گے ، ہر خادم کے ساتھ سونے کا ایک بڑا پیالہ ہوگا جس میں کئی قسم کا کھاناہوگا( اور وہ کھانا اس قدر لذیذ ہوگا کہ) اس کے آخری لقمے کی لذت پہلے لقمے سے کہیں زیاد ہ ہوگی اور ان میں سے ہر عورت کے لئے سرخ یاقوت کے تخت ہوں گے ، ہر تخت پر ستر بستر ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے اور ہر بستر پر ستر گدے ہوںگے اور اس کے خاوند کو بھی اسی طرح سب کچھ دیا جائے گا (اوروہ) موتیوں سے جڑے ہوئے سرخ یاقوت کے ایک تخت پر بیٹھا ہوگا ، اس کے ہاتھوں میںوہ کنگن ہوں گے ، یہ رمضان المباک کے ہر روزہ کا بدلہ ہے ( خواہ) جو (شخص) بھی روزہ رکھے ( اور روزہ دارنے) روزہ کے علاوہ جو نیکیاں (اعمال صالحہ) کی ہیں، ان کا اجر وثواب اس کے علاوہ ہے ،مذکورہ ثواب صرف روزہ رکھنے کا ہے (مجمع الزوائد: باب فی شہور البرکة ، وفضل شھر رمضان، حدیث: ٤٧٧٣،علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کو اس کو طبرانی نے کبیر میں روایت کیاہے اس میں ہیاج بن بسطام ضعیف ہے ، علامہ ابن حجر مطالب العالیة میں فرماتے ہیں: اس کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، پھر کہا ہے کہ اگر یہ خبر صحیح ہے ، لیکن جریر بن ایوب کی وجہ سے یہ کھٹکتی ہے ، لیکن چونکہ یہ رغائب اور فضائل سے تعلق رکھتی ہے ، اس لئے اس سے تساہل برتا ہے)
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو رمضان میں پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو اس سے پہلے کسی امت کو نہیں دی گئیں(١) روزہ دار کے منہ کی بواللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے(٢) افطار تک فرشتے ان کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں (٣)اللہ تعالی روزانہ جنت کو مزین فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے اپنے اوپر سے محنت و تکلیف کو اتار پھینکیں گے اور تیرے پاس آئیں گے(٤) اس مہینے میں سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ لہذا غیر رمضان میں انہیں جو آزادی حاصل ہوتی ہے وہ اس میہنے میں نہیں ہوتی (٥) ماہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی بخشش کردی جاتی ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہی شب قدرہے ؟ فرمایا نہیں البتہ بات یہ ہے کہ جب مزدور اپنی مزدوری پوری کرلے تو اسے اس کی تنخواہ پوری پوری دے دی جاتی ہے۔(مسند احمد: مسند أبی ہریرة، حدیث: ٧٩٠٤، علامہ منذری فرماتے ہیں ، اس کو احمد، بزار، بیہقی، ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب الثواب میں نقل کیا ہے ، پھر ایک دوسری سند سے اس روایت کونقل کرکے فرماتے ہیں ، یہ پہلی والی روایت سے زیادہ اصلح ہے )
حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کریم ۖ نے ارشاد فرمایا: جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ بھی رمضان کی آخری رات آنے تک بند نہیں کیا جاتا اورکوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کی راتوں میں سے کسی رات میںنماز پڑھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہر سجدے کے بدلے میں ڈھائی ہزار نیکیاںلکھے گا اور اس کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا ایک مکان بنادے گا، جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر سونے کا ایک محل ہوگا جو سرخ یاقوت سے آراستہ ہوگا ، پھر جب رزوہ دار رمضان المبارک کے پہلے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گذشتہ سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور روزہ دار کے لئے روزانہ صبح کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ستر ہزار فرشتے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے ہیں اور رمضان شریف کی رات یا دن میں ( اللہ کے حضور میں) کوئی سجدہ کرتا ہے تو ہر سجدہ کے عوض اس کو (جنت میں) ایک ایسا درخت ملتا ہے جس کے سایہ میں سوار پانچ سو برس تک چل سکتا ہے ۔
رمضان مغفرت کا مہینہ:
رمضان بخشش اور مغفرت کا مہینہ، گنہ گاروں اور پاپیوں کے گناہوں کے دھلوانے اور خدا کے حضور اپنی انابت وخشوع وخضوع اور اپنی عبادات اور لقاء رب کے شوق کو دکھلا کر اپنے آپ کو ذنوب وعصیان سے پاک وصاف کرنے کا مہینہ ہے ، اس لئے حضور اکرم ۖ نے اس شخص کے حق میں بددعا فرمائی ہے جو رمضان کا مہینہ پائے ، پھر اپنی مغفرت کا سامان نہ کرسکے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ منبر پرچڑھے، تین مرتبہ آمین کہا، پھر فرمایا: تم جانتے ہو کہ میں نے آمین کیوں کہا: تو حضرات صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: میرے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے تھے، انہوں نے مجھے بتلایا کہ اے محمد (ۖ) جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے اور اس کو اللہ عزوجل اپنے سے دور کردے، انہوں نے آمین کہنے کو کہا تو میںنے آمین کہا، جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور ان کی اطاعت نہ کرسے تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے اوراللہ عزوجل اس کو اپنی رحمت سے دور کردے تو میں نے کہا: آمین، پھر فرمایا:جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور اس کی مغفرت وبخشش نہ ہوسکے تو وہ جہنم میں جائے اور اللہ عزوجل اس کو اپنے رحمت سے دور کردے تو میں نے کہا: آمین(علامہ ہیثمی فرماتے ہیں : اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے ، اور یہ ضعیف ہے اور اپنے دیگر شواہد کی وجہ سے صحیح ہوجاتی ہے )۔
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمان پر ماہ رمضان سے بہتر کوئی مہینہ سایہ فگن نہیں ہوتا اور منافقین پر رمضان سے زیادہ سخت کوئی مہینہ نہیں آتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اس مہینے میں عبادت کے لئے طاقت مہیا کرتے ہیں اور منافقین لوگوں کی غفلتوں اور عیوب کو تلاش کرتے ہیں۔(مسند احمد :مسند أبی ہریرة، حدیث:٨٣٦٨)
رمضان جہنم سے آزادی کا مہینہ:
اللہ عزوجل کے یہاں رمضان کے ہر دن لوگ جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان مرد وعورت کی ایک دعا قبول ہوتی ہے ، یعنی یہ دعا کی قبولت اور نماز ، روزوں ، تلاوت قرآن ، تراویح اور دیگر اعمالِ صالحہ سے مسلمان کے اپنی زندگی سے معمور کر کے اپنے آپ کو جہنم سے آزادی دلانے کا مہینہ ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دورازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے اے خیر کے طلبگار آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار ٹھہر جا اور اللہ کی طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے(ترمذی:باب فضل شھر رمضان، حدیث:٦٨٢)اور ایک روایت میں ہے : رمضان کے ہر غروب کے وقت ایک فرشتہ آواز لگاتا ہے ، اے خیر کے طلبہ گار آگے بڑھ،ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے ، ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اس کو عنایت کیا جائے ، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی بخشش کی جائے ، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ، اللہ عزوجل ہر رات افطار کے وقت رمضان میں اپنے کچھ بندے اور بندیوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہیں (فضائل شھر رمضان لابن شاہین:٣٦، مکتبة المینار، اردن)۔
رمضان میں نیکیوں کا ثواب دوچند کردیا جاتا ہے :      
 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمارے سامنے (جمعہ کا یا بطور تذکیر و نصیحت) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! باعظمت مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہو رہا ہے، یہ بڑا ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں قیام (عبادت خداوندی) جاگنا نفل قرار دیا ہے جو اس ماہ مبارک میں نیکی (یعنی نفل) کے طریقے اور عمل کے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا ہو (یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے ثواب کے برابر ہوتا ہے)اور جس شخص نے ماہ رمضان میں(بدنی یا مالی) فرض ادا کی تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ستر فرض ادا کئے ہوں (یعنی رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی ادائیگی کے ثواب کے برابر ہوتا ہے )اور ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے (کہ روزہ دار کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے رکا رہتا ہے)وہ صبر جس کا ثواب بہشت ہے ماہ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے لہذا اس ماہ میں محتاج و فقرا کی خبر گیری کرنی چاہئے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں (دولت مند اور مفلس ہر طرح )مومن کا (ظاہر اور معنوی) رزق زیادہ کیا جاتا ہے جو شخص رمضان میں کسی روزہ دار کو (اپنی حلال کمائی سے) افطار کرائے تو اس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ کی آگ سے اس کی حفاظت کا سبب ہو گا اور اس کو روزہ دار کے ثواب کی مانند ثواب ملے گا بغیر اس کے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سب تو ایسے نہیں ہیں جو روزہ دار کی افطاری کے بقدر انتظام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ثواب اللہ تعالی اس شخص کو بھی عنایت فرماتا ہے جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی یا کھجور اور یا ایک گھونٹ پانی ہی کے ذریعے افطار کرا دے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے تو اللہ تعالی اسے میرے حوض (یعنی حوض کوثر) سے اس طرح سیراب کرے گا کہ وہ(اس کے بعد) پیاسا نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو جائے اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ بخشش ہے یعنی وہ مغفرت کا زمانہ ہے اور اس کے آخری حصے میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے (مگر تینوں چیزیں مومنین کے لیے ہی مخصوص ہیں کافروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے)اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و لونڈی کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور اسے آگ سے نجات دے گا۔( الترغیب: کتاب الصوم ، الترغیب فی الصوم، حدیث:١٤٨٣،علامہ منذری فرماتے ہیں: اس کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، پھر فرمایا یہ خبر صحیح ہے )
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس رمضان کے مہینہ کی ہم جس قدر ممکن ہوسکے قدر کریں ، اس کے فضائل اور برکات کے استحضار اور یاددہانی کا مقصود بھی یہی ہے کہ اس ماہِ مبارک کے سایہ فگن ہونے اور اس کی آمد آمد سے پہلی ہی ہم اسکے خیر وبرکات اور اس کے فضائل ومناقب کو جان کر اس کا اہتمام کرنے ولے بنیں اور اس کی تمام عبادت میں دلجمعی اور دلچسپی کامظاہرہ کر کے رضاء رب، لقاء رب ، جنت اور اس س کی نعمتوں اور اس کے آسائش وآرام کے مستحق بنیں۔لوگوں کو افطار کروائیں، یکسو ہو کر عبادات میں لگ جائیں، دعاؤں کا خوب اہتمام کریں ، یہ قبولت دعا کے موقع ہے ، خیر اور بھلائی کے کاموں میں خوب خرچ کریں، تلاوت قرآن کریم سے اپنے رات ودن کو معمور کریں، نماز پنج گانہ باجماعت ادا کریں۔ذکر وفکر میں اپنے اوقات صرف کریں استغفار کی کثرت کریں، دعاؤں کے ذریعہ جنت کا سوال اور جہنم سے پناہ چاہیں۔

آج امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ اس نے رمضان کو بجائے اس کے کہ وہ نیکوں کے اکٹھا کرنے کا سیزن ہوتا ہے ، ہم نے اسے کمائی کا سیزن بنالیا ہے، اس لئے تجار کو اور دیگر پیشوں سے وابستہ حضرات کو دن بھر اپنے کاموں سے فارغ ہو کر یکسوئی کے ساتھ عبادات میں لگ جانا چاہئے ، اس کے ساتھ ساتھ مسلمان تجار اپنے ماتحت پر کام کے بوجھ کو ہلکا کریں، ان کو بھی نماز اور روزوں کا موقع عنایت کریں ، ان کی نیکیوں کے وہ بھی حصہ دار ہوں گے ،رمضان کو گراں فروشی کا مہینہ نہ بنائیں مصنوعی قلت ، ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ مسلمان بھائیوں کا خون نہ چوسیں۔

مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل، MOLANA GAYAS AHNMED RASHAdI

  مولانا غیاث احمد رشادی، امت کا ایک دھڑکتا دل رفيع الدين حنيف قاسمي، اداره علم وعرفان ، حيدرآباد در نایاب، یگانہ روزگار ، ممتازفعال، مت...