بسم اللہ
الرحمن الرحیم
مفتی رفیع الدین
حنیف قاسمی، وادی مصطفی ،شاہین نگر ، حیدرآباد
rafihaneef90@gmail.com
رمضان کی مخصوص عبادتوں میں
سب سے اہم اور جامع عبادت ''روزہ '' ہے ، وقت سحر کے ختم سے لے کر غروب
آفتاب تک
کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام روزہ ہے ، رمضان المبارک کی پہچان ہی ''روزہ''
کی عبادت سے ہے ، اللہ عزو جل نے قرآن کریم میں اس مہینہ کا تعارف نزول قرآن کے مہینہ
سے فرمانے کے بعد فرمایا کہ جو شخص اس ماہ کو پائے وہ روزہ رکھے '' فمن شھد منکم
الشھر فلیصمہ''(البقرة:١٨٥)روزہ کو دوسری عبادتوں پر فضیلت خصوصی طور پر اس لئے
حاصل ہے کہ دیگر عبادات میں ریاء کاری ، دکھاوا ممکن ہے اور روزہ تو محض امور
ثلاثہ سے نیت کے ساتھ رکے رہنے کا نام ہے ، اس میں کوئی عمل نہیں ہوتا کہ اس کا
اظہار وافشاء کیا جائے۔اس کو لوگوںکو بتایا اور دکھلایا جائے۔
روزہ کا کوئی مثل نہیںہے
احادیث مبارکہ میں روزہ کی
اہمیت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ اس کا کوئی مثل اور بدل نہیں ہے ، یہ
بالکل بے مثال اوربے بدل اور نہایت فضیلت والی عبادت ہے ۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک
مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی
ایسے عمل کا حکم دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کر لو کیونکہ روزے جیسا کوئی عمل نہیں ہے۔(مسند
احمد: حدیث أبی امامة، حدیث:٢٢٢٢١)اور اگر دن کے وقت ان کے گھر سے دھواں اٹھتا
ہوا دکھائی دیتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے یہاں کوئی مہمان آیا ہے۔یہاں ''فنہ
لا مثل لہ'' کے الفاظ استعمال ہوئے ہیںاور بعض جگہوں پر ''فنہ لا بدل لہ'' کے
الفاظ آئے ہیں ۔
روزہ کا بدلہ خود باری
تعالی عنایت کرتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ روزہ میرے
لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، میری وجہ سے وہ اپنی خواہش کو اور کھانے اور
پینے کو چھوڑتا ہے، اور روزہ ڈھال ہے اور روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی
جس وقت روزہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی جس وقت اپنے رب سے ملاقات کرے گا، اور
روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔
اور ایک روایت میں ہے :روزہ
دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، جب افطار کرتا ہے۔ تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب
سے ملے گا تو روزہ کے سبب سے خوش ہوگا۔(بخاری: باب ھل یقول نی صائم ذا شتم، حدیث:٥٠٨١)
ایک دوسری روایت میں ہے: روزہ
دار میری خاطر اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے لہذا اس کا روزہ میری وجہ سے ہوا اس لئے
بدلہ بھی میں خود ہی دوں گا ہر نیکی دس گنا بڑھا دی جاتی ہے اور سات سو گنا تک چلی
جاتی ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
''روزہ کا بدلہ میں ہی دوں
گا''اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ دیگر اعمال کی طرح روزہ میں ریاء کاری نہیں ہوسکتی،
اس لئے یہ عمل خالص میرے لئے ہو ا۔اس کا ایک مطلب علامہ حجر نے یہ بیان کیا ہے کہ:
یعنی روزے کے ثواب کی مقدار اور اس کے نیکیوں کے اضافہ کو میں ہی جانتا ہو، دیگر
عبادات کے ثوابات بعض لوگوں کو معلوم ہیں۔علامہ قرطبی فرماتے ہیں: اعمال کے ثواب کی
مقدار کا لوگو ں کو علم ہے اور یہ ثواب دس گناہ سے سات سو گناہ تک بڑھایا جاتاہے
سوائے روزے کے کہ اس کا ثواب بغیر تعیین مقدار کے اللہ عزوجل عنایت کریں گے۔اسی کو
اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں فرمایا: ''نمایوفی الصابرون أجرہم بغیر حساب''(الزمر:١٠)(فتح
الباری)علامہ مناوی فیض القدیر میں فرماتے ہیں: ''میں ہی اس کا بدلہ دوں گا) اسے
بدلہ اور ثواب کی کثرت کو بتلانا ہے کہ چونکہ جب سخی اور داتا بلا کسی واسطی کے
خود ہی دے تو اس عطا اور داد ودہش کی سرعت اور عظمت کا تقاضا کرتا ہے ۔ اس کے
علاوہ روزہ یہ اللہ عزوجل کی صفت سے تعلق رکھتا ہے ، جس میں کھانا ، پینا اور ترک
شہوات ہے ۔
روزہ کے عمل سے حقوق
العباد ادا نہیں کئے جائیںگے:
مطلب یہ ہے کہ اگر بندے نے
حقوق العباد کو ضائع کئے ہوں، چوری کی ، زنا کیا، کسی پر ظلم وزیادتی ، گالی
گلوچ،غیبت ، چغلی، حسدوغیرہ کیا تو اس کے اعمال سے بندوں کے حقوق ادا کئے جائیںسوائے
روزہ کے وہ بندے کے نامہ اعمال میں خالص اس کے لئے رہے گا، اس سے حقوق العباد کی
ادائیگی نہ ہوگی ۔بلکہ روزہ کا عمل اس کا ثواب اس کو پورا پورا دیا جائے اور یہ اس
کے دخول جنت کا سبب ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارشاد باری تعالی ہے
روزہ کے علاوہ ہر عمل کا کفارہ ہے روزہ خاص میرے لیے ہیں اور میں خود اس کا بدلہ
دوں گا، روزہ دار کے منہ کی بھبک اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے(بخاری:
باب لکل عمل کفارة،حدیث:٧١٠٠)
روزے داروں کے لئے مخصوص
دروازہ:
اللہ عزوجل نے دخولِ جنت
کے لئے روزہ داریوں کے لئے مخصوص دروازہ بنوایا ہے ، جس سے صرف روزہ دار ہی داخل
ہوسکے گے ، روزے داروں کے لئے روزِ قیامت یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہوگا۔حضرت سہل
بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان رکھا گیا اور اس
دروازے سے صرف روزہ داروں کا داخلہ ہی ہو سکے گا۔(بخاری: باب صفة أبواب الجنة،حدیث:٣٠٨٤)آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت
کے دن اس دروازے سے روزے دار ہی داخل ہوں گے کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا، کہا جائے گا
کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو
سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا اور اس میں کوئی داخل
نہ ہوگا۔(بخاری: باب الریان للصائمین، حدیث:١٧٩٧) ترمذی کی روایت میں ہے :'' ومن
دخلہ لم یظمأ أبدا''(ترمذی: فضل الصوم، حدیث: ٧٦٥)جو اس میں داخل ہوگا وہ کبھی پیاسا
نہ ہوگا۔
روزہ روزِ قیامت سفارش کرے
گا:
روزہ یہ روزِ قیامت بندہ کی
سفارش کرے اور اس کی سفارش قبول کی جائے اور وہ جنت میں داخل کیا جائے گا۔
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں
گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے
روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ میں نے
رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چنانچہ ان
دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔(مسنداحمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، حدیث:٦٦٢٦)
روزہ دار کی دعا رد نہیں کی
جاتی:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی
عادل حکمران، روزہ دار تا آنکہ روزہ کھول لے اور مظلوم کی بددعا وہ بادلوں پر سوار
ہو کر جاتی ہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالی
فرماتے ہیں مجھے اپنی عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا خواہ کچھ دیر بعد ہی
کروں۔(سنن ابن ماجة: باب فی الصائم لا ترد دعوتہ، حدیث:١٧٥٢)
روزہ دارمنہ کی خوشبو مشک
سے بہتر:
روزہ دار کی ایک خصوصیت
اور ان کا ایک امتیازیہ ہے کہ روزہ دار کے روزہ کی حالت میں معدہ کے خالی ہونے سے
جو بو اس کے منہ سے آئیں گے وہ عند اللہ مشک کی خوشبو سے بہتر شمار کی گئی ہے ۔
اس حوالے سے نبی کریم کا
ارشاد ہے کہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ ارشادباری تعالی ہے روزہ میرے
لیے ہے اور اس کا بدلہ بھی میں خود ہی دوں گا روزہ دار کے منہ کی بھبک اللہ کے نزدیک
مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے۔(بخاری: باب ما یذکر فی المسک،حدیث:٥٥٨٣)
روزہ جہنم سے ڈھال ہے :
روزہ کو جہنم سے بچاؤ کا
ذریعہ قرار دیا گیا ہے ، یہ جس طرح انسان جنگ اور قتال کے موقع سے ڈھال سے دشمن کے
وار سے بچاؤ کرتا ہے ، اسی طرح روزہ یہ انسان کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال ہے جس سے
انسان جہنم سے اپنا بچاؤ کرتا ہے اور وہ روزہ خاص میرے لئے ہے لہذا اس کا بدلہ بھی
میں ہی دوں گا۔(مسند احمد: مسند أبی ہریرة، حدیث:٩٣٦٢) علامہ مناوی اس کی تشریح میں
فرماتے ہیں ، روزہ دنیا میں شہوات کو توڑنے اور اعضاء وجوارح کی حفاظت کی وجہ سے
گناہوں اور معاصی سے بچاؤ اور آخرت میں دوزخ چھٹکارے کی وجہ ہے ۔(فیض القدیر)
ان احادیث کی روشنی میں
روزہ کی فضیلت اوراس کے مقام کا علم ہوتا ہے کہ روزہ رضا رب کا ذریعہ اور خوشنودی
رب کے حصول کا وسیلہ ہے ۔